آہستہ آہستہ یہ لبادہ بھی چاک ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے مخالفین ہر وقت موجودہ حکومت کو نالائق کہتے نہیں تھکتے کہ یہ حکومت نکمی ہے، اسے کچھ نہیں آتا، ان سے ملک نہیں چل رہا، انکی نالائقی سے خارجہ محاذ بھی ناکامیوں کی زد میں ہے، غلط پالیسیوں کے باعث معیشت کے بخئیے ادھڑ چکے، مہنگائی بازاروں میں ناچتی پھرتی ہے۔ نالائقی کی وجہ سے بیروزگاری ملک کے طول و عرض میں پھیل چکی، ڈالر اوپر روپیہ نیچے۔ آمدن کم سے کم، اخراجات زیادہ سے زیادہ۔ نالائقی کی وجہ سے تیل بجلی ، گیس مہنگے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ سب باتیں ہیں جو اب آہستہ آہستہ غلط ثابت ہو رہی ہیں۔ بہت ہی کم لوگ تھے جو ان باتوں پہ یقین نہیں کرتے تھے، وہ ان باتوں سے "الگ" بات کرتے تھے مگر لوگ جن میں حکومت کے ناقدین بھی شامل تھے، ان "الگ" باتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔
ان "الگ" باتوں کے مطابق اس حکومت کی تمام تر پالیسیاں انکے پلان اور طے کردہ سمت کے مطابق درست سمت ہی کی طرف گامزن ہیں۔ ہر پالیسی میں ذہانت، قابلیت اور دور اندیشی کا استعمال واضح نظر آتی ہے۔ یہ کہنا کہ وزیر اعظم نالائق ہیں، سراسر غلط اور خود کو بے وقوف بنانے والی بات ہے۔ یہ کہنا بھی کم عقلی کے ذمرے میں آئے گا کہ وزیر اعظم ٹھیک ہے مگر اسکی ٹیم فارغ ہے۔ بالکل نہیں، تین سالوں میں وزیر اعظم اور انکی چنی ہوئی ٹیم بہترین انداز میں معاملات کو طے کردہ سمت کے مطابق ہینڈل کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جس وزیر کو جو ٹاسک سونپا جاتا ہے وہ بخوبی اسے سرانجام دیتا ہے۔
سب کو یاد ہوگا کہ موجودہ حکمران جب کنٹینر پر تھے تو دو اقسام کی باتیں کرتے تھے۔ پہلی قسم تو یہ کہ فلاں فلاں کرپٹ ہے، فلاں نے اتنے ارب لوٹ لئے، اس نے ملک کو بیچ ڈالا، فلاں بھی کرپٹ، یہ اتنی کرپشن کرتا ہے، وہ اتنی کرپشن کرتا ہے۔ فلاں نے اتنا قرضہ لیا۔ ملک قرضوں میں ڈوب گیا۔ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، سب کو رلاؤں گا۔ سب کو جیل بھیجوں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو تھیں پہلی قسم کی باتیں۔
دوسری قسم کی بات جو کی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔ کرپشن کو کیسے ختم کرنا ہے۔ غربت کو کیسے ختم کرنا ہے۔ بیروزگاری کو کیسے ختم کرنا ہے۔ خارجہ محاذ کیسا بہتر بنانا ہے۔ قرضے کیسے اتارنے ہیں۔
تو جناب ان دو اقسام کی باتوں پر عمل ہوتا نظر آتا ہے۔ قریب قریب تمام وعدوں اور باتوں پہ عمل کے لئے پالیسیاں وضع کی گئیں تھیں۔ کچھ بھی ایسا نہیں کیا جا رہا جس کا اعلان کنٹینر پہ کھڑے ہو کر نہ کیا گیا ہو۔
سب سے پہلے کرپشن کے خاتمے والی بات کو لے لیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے حکومت نے جدید خطوط پر استوار کرپشن کے نت نئے طریقوں سے باری باری ہر محکمے سے کرپشن کر کر کے اتنی کرپشن کر ڈالی کہ اب بعد میں کسی اور کو کرپشن کرنے کو کچھ ملے گا ہی نہیں، اور یوں ہوا کرپشن کا خاتمہ۔ یہی تو کہا تھا کہ میں ان کو رلاؤں گا، میں ان کو بتاؤں گا (کہ کرپشن کیسے ہوتی ہے)۔
کہا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ ادویات، شوگر، پٹرول، آٹا، رنگ روڈ، کرونا فنڈ، عدلیہ و اداروں کی توقیر، خارجی تعلقات، کشمیر، بجلی ، گیس، تیل، ایل این جی۔ کسی کو چھوڑا؟ نہیں چھوڑا۔ تو یوں ہوا یہ وعدہ بھی پورا۔ اور سب اتنی ذہانت اور چالاکی سے کہ کوئی پوچھنے یا ہاتھ ڈالنے والا تک نہیں۔
دیگر تمام وعدے بھی اسی ڈگر پر پورے ہو رہے ہیں، یعنی غربت ختم کروں گا۔ مہنگائی ختم کروں گا۔ قرضے ختم کروں گا۔ ایسا ہی ہوا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی حسینہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے نہ کہ حسن تو ان پر ختم ہے۔ بالکل ویسے ہی آج غربت، مہنگائی، قرضے، معیشت، بیروزگاری اس ملک پر ختم ہو چکے ہیں۔
ہاں کچھ باتیں پوری نہیں ہو سکیں۔ اس پر یقینا نالائقی کا سرٹیفیکیٹ دینا بنتا ہے۔ پلاننگ کا فقدان نظر آتا ہے کہ آج سب غدار جیلوں سے باہر ہیں۔ یہاں پر نالائقی والی بات کرنے والے سچے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔