اس سے پہلے کہ اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے یہاں یہ کہنا برمحل ہے کہ اس نظریے کی علمبردار اپوزیشن میں خود کو ن لیگ ہی کہتی ہے۔ لیکن ن لیگ کو خود اس سوال کے جواب کی تلاش ہے کہ سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کون سا راستہ اپنایا جائے۔ اور اس پس و پیش میں مسلم لیگ ن خود دو کیمپس میں تقسیم ہو چکی ہے۔
ایک جانب شہباز شریف ہیں جو مفاہمتی انداز فکر رکھتے ہیں۔ دوسری طرف مریم اور نواز شریف جو کہ اسٹیبلشمنٹ کو ہر وقت ہاتھ ڈالنے کو تیار رہتے ہیں اور براہ راست نام لے کر اداروں کے سربراہان جنہیں وہ دھاندلی میں ملوث سمجھتے ہیں انہیں پکارتے ہیں۔ ن لیگ میں یہ بحث جسے دونوں دھڑوں کی جانب سے پورے زور شور سے کیا جا رہا ہے کسی نتیجے پر منتج نہیں ہو سکی۔ دیکھا جاتا ہے کہ کبھی نواز شریف گوجرانوالہ جلسے میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف کو پکارتے ہوئے ان سے آئین شکنی کا جواب طلب کرتے ہیں تو کبھی مریم نواز ایکسٹینشن کے 'گناہ' سے دور رہنے کی بات کرتی ہیں۔ پھر درمیان میں کبھی شہباز شریف ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ ان کی فیصلہ ساز حلقوں سے ملاقاتیں سامنے آتی ہیں۔ کبھی وہ 14 اگست کی GHQ تقریب میں نمایاں طور پر براجمان ہوتے ہیں تو کبھی کینٹونمنٹ بورڈ سے الیکشن جیت کر پھولے نہیں سماتے۔
پھر ماضی میں یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ اچانک گرفتار ہو گئے۔ حتیٰ کہ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو اتنے مؤدب کہ لگتا ہے کہیں ہلچل سے یہ طلسم ہوشربا ٹوٹ نہ جائے۔ تو دونوں پالیسیوں کا نتیجہ صفر بٹہ صفر ہی نکلتا ہے۔
ایسے میں حالیہ کنٹونمنٹ انتخابات کے بعد سے شہباز شریف گروپ کی گڈی ایک بار پھر چڑھی ہوئی ہے۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ پارٹی میں فی الحال مزاحمت گروپ کی خاموشی کا وقت ہے۔ یہ نواز شریف کے لئے ایک بہت ہی نازک اور بڑی ذہانت سے کھیلے جانے والا کھیل بن چکا ہے۔ ایک جانب مفاہمتی پارٹی ممبران ہیں تو ساتھ عام ووٹر جسے گرجتی برستی مریم پسند ہے۔ اور وہ شعلہ بیان نواز شریف کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ نہ ووٹر مایوس ہونا چاہیے، نہ ہی لیڈر۔ اس نازک توازن کو نواز شریف نے فی الوقت سہارا دے کر ایک درمیان کا رستہ نکلا ہے اور کہا ہے کہ وہ سویلین بالادستی چاہتے ہیں وہ چاہے مفاہمت سے ملے یا مزاحمت سے، سو بسم اللہ۔ ہم دونوں کے لئے تیار ہیں۔
نواز شریف کے مؤقف میں یہ بڑی تبدیلی ہے۔ لیکن شاید یہ رعایتی تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے لئے نہیں، بلکہ اپنی پارٹی کے ورکرز اور قیادت کے لئے ہے۔ نواز شریف پوری پارٹی کا قائد رہنا چاہتے ہیں، اس کے لئے انہیں مفاہمتی گروپ کے نقطۂ نظر کو بھی کسی صورت میں اپنی قیادت میں نمائندگی دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم، شاید انہیں بھی معلوم ہے کہ وہ مزاحمت کے بغیر اپنا حق نہیں لے سکتے اور اسی لئے مزاحمت کی چھڑی کو بھی انہوں نے مکمل طور تیاگ نہیں دیا۔
انہوں نے ساتھ ہی ایک اور پتہ بھی کھیلتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے لئے نقطۂ فکر چھوڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج برطانیہ کی عدالتیں ہمیں کلین چٹ دے رہی ہیں، اب عمران خان اور اس کو لانے والے کیا بتائیں گے؟ کیا جواب دیں گے؟ جھوٹے مقدمے کیوں بنائے گئے؟ نواز شریف نے واضح طور پر جہاں پارٹی میں بے چینی کو کم کرنے کے لئے پیغام دیا ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی معاملات سلجھانے کے لئے سپیس دی ہے۔
اس حوالے سے گذشتہ دنوں پروگرام خبر سے آگے میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروردی نے بھی نواز شریف کے مبینہ پالیسی شفٹ کی جانب اشارہ کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسے اب اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کے نام لینے کی بجائے تنقید کا مکمل محور عمران خان کی ذات بن چکی ہے اور تنقید سویلین حکومت تک ہی محدود ہے۔ دوسری جانب نواز شریف سے پی ٹی آئی کے لوگوں کی ملاقاتوں کی خبریں بھی عام کی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک کھل کر کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ اب نواز شریف کی جانب سے اوپن آفر دے دی گئی ہے۔
یہ صورتحال یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کو بھی سوچنے پر مجبور کرے گی اور اگر وہ اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ کچھ لو، کچھ دو کے تحت معاملات سلجھا لیے جائیں تو نواز شریف مزید لچک دکھا کر اصولی مؤقف کی بجائے working dynamics والی دلیل اپنا کر پالیسی کو ترتیب دیں گے۔ پاکستان میں جیسے ماضی میں سیاست تبدیل ہوتی ہے، ویسے ہی نواز شریف اب بھی سیاسی بساط کا رنگ ڈھنگ بدل سکتے ہیں اگر ان کی راہ کی رکاوٹ سے وہ دوستی کر لیں۔ ہم نے یہ نظارہ 2013 میں بھی دیکھا ہے جب لوگ جوق در جوق ق لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اگر ایسی صورتحال بنتی ہے تو نہ صرف تحریک انصاف کے لئے اگلا الیکشن مشکل ہو جائے گا بلکہ امپائر کی انگلی ن لیگ کی سمت میں نہ بھی ہو، واپس جیب میں بھی چلی گئی تو نیب قانون میں تبدیلی، الیکٹرانک ووٹنگ کا ڈھکوسلہ اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹوں کی امیدیں سب خود بخود دم توڑ جائیں گے۔