اس ٹیلی فون کال کا متن یہ ہے:
عمران خان: اچھا اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، نام نہیں لینا امریکہ کا، بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی آج نہیں لکھی جائے گی نا!
اعظم خان: سر میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ جو سائفر ہے نا، میرا خیال ہے ایک میٹنگ کر لیتے ہیں اس کے اوپر۔ دیکھیں اگر آپ کو یاد ہے تو آخر میں ایمبسیڈر نے لکھا ہوا تھا کہ ڈیمارچ کریں۔ اگر ڈیمارچ نہیں بھی دینا تو کیونکہ رات میں نے بہت سوچا ہے اس کے اوپر۔۔۔ آپ نے کہا کہ شاید انہوں نے اٹھایا لیکن نہیں، پھر میں نے سوچا کہ اس کو کور کیسے کرنا ہے؟ ایک میٹنگ کریں شاہ محمود قریشی اور فارن سیکرٹری کی۔ شاہ محمود قریشی یہ کریں گے کہ وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں گے تو جو بھی پڑھ کر سنائیں گے نا تو اس کو کاپی میں بدل دیں گے۔ وہ میں منٹس میں کرلوں گا کہ فارن سیکرٹری نے یہ چیز بنا دی ہے۔۔۔ بس اس کا یہ کام ہوگا مگر یہ کہ اس کا انیلسیز ادھر ہی ہوگا۔ پھر انیلسیز اپنی مرضی کے منٹس میں کر دیں گے تاکہ منٹس آفس کے ریکارڈ میں ہوں۔
انیلسیز یہ ہوگا کہ یہ ان ڈائریکٹ تھریٹ ہے۔ بتائیں گے کہ ڈپلومیٹک لینگوئج میں اسے تھریٹ کہتے ہیں۔ دیکھیں منٹس تو پھر میرے ہاتھ میں ہیں نا، اپنی مرضی سے منٹس ڈرافٹ کر لیں گے۔
عمران خان: تو پھر کس کس کو بلائیں اس میں؟ شاہ محمود، آپ (اعظم خان)، میں اور سہیل؟
اعظم خان: بس۔
عمران خان: ٹھیک ہے۔ کل ہی کرتے ہیں۔
اعظم خان: تاکہ وہ چیزیں ریکارڈ میں آ جائیں۔۔۔ آپ یہ دیکھیں کہ وہ کونسلیٹ فار اسٹیٹ ہیں۔ وہ پڑھ کر سنائیں گے تو میں ایگزیکٹ کاپی کر لوں گا آرام سے تو آن ریکارڈ آ جائے گی کہ یہ چیز ہوئی ہے۔ آپ فارن سیکرٹری کو بلائیں تاکہ پولیٹیکل نہ رہے اور بیوروکریٹک ریکارڈ پہ چلا جائے۔
عمران خان: نہیں تو اس نے ہی لکھا ہے ایمبیسیڈر نے۔
اعظم خان: ہمارے پاس تو کاپی نہیں ہے نا یہ کس طرح انہوں نے نکال دیا؟
عمران خان: یہ یہاں سے اٹھی ہے۔ اس نے ٹھائی ہے۔ لیکن اینی ہاؤ۔ ہے تو فارن سازش بنا دیتے ہیں۔