نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو "خبر سے آگے" میں اظہار خیال کرتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ جو لوگ سفارت کاری جانتے ہیں انہیں پہلے دن سے پتہ تھا کہ عمران خان اور ان کے حواری بیرونی سازش کو لے کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ پہلے دن سے واضح تھا کہ یہ ڈرامہ ہے۔ رجیم چینج والی بات میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بڑی بددیانتی سے اس کو ایک ہوا بنا کر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ آج واضح ہوگیا کہ یہ ان کی مںصوبہ بندی تھی اور انہوں نے قوم سے جھوٹ بولا۔ تیسری بات یہ کہ ہماری قوم کتنی بھولی ہے کہ وہ اس سازش والی بات پہ کتنے آرام سے یقین کر لیتی ہے۔ صحافت کا بھی یہ حال ہے کہ ہمارے صحافی دوست بھی غلط رخ لے لیتے ہیں۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے، معیشت خراب ہے، چوتھا سب سے برا پاسپورٹ ہمارا ہے، بھارت کو ہم نے دشمن بنا رکھا ہے، اصل مسائل تو یہ ہیں مگر ہم سازشی نظریوں پر اتنی جلدی اعتبار کر لیتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آڈیو لیکس کی تحقیقات کروانے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تفتیش سے کچھ بھی نہیں نکلتا۔ قوم کو سمجھ لینا چاہئیے کہ ان چیزوں میں الجھنے کی بجائے اپنے اصل مسائل پر توجہ دینی چاہئیے۔ تاہم سکیورٹی بریچ پر ضرور تفتیش ہونی چاہئیے۔ عمران خان کی ٹیپ کا باہر آنا یقیناً تفتیش طلب معاملہ ہے۔
پاک امریکہ تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے کامران بخاری کا کہنا ہے کہ یہ پہلو غور طلب ہے کہ عمران خان کی گفتگو ریکارڈ کرنے اور سننے میں کس کی دلچسپی ہے۔ لوکل انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی گفتگو ٹیپ کرتی ہیں اور خان صاحب ماضی میں خود بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں۔ انہیں ماضی میں اس پر کوئی اعتراض نہیں رہا۔ دوسری بات یہ کہ پیگاسس بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بھارت ایسا کرے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی چاہ سکتی ہیں کہ انہیں پتہ چلے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ گفتگو سننے والی بات مختلف ہے۔ سننے والے بہت سے لوگ ہیں۔ یہاں اصل معاملہ یہ ہے کہ لیک کرنے والوں کا کیا مقصد ہے؟ اس حوالے سے سردست کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت قبل از وقت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آڈیو لیک والے معاملے کا دلچسپ پہلو یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا صرف سویلین لوگوں کی آڈیوز لیک ہوتی ہیں یا مسلح افواج کے لوگوں کی بھی گفتگو لیک ہوتی ہے۔
اسلام آباد میں مقیم معروف صحافی اعجاز احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اب 'پراجیکٹ عمران خان' کو لپیٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ یہ آڈیو کال مکمل نہیں ہے ابھی مزید آنی ہیں۔ اس میں اس میٹنگ کی بھی ریکارڈنگ ہو گی جسے بلانے کا اعظم خان کہ رہے ہیں۔ اس سے مزید باتیں سامنے آئیں گی۔
نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں باقی ایشوز کے علاوہ آڈیو لیکس والے معاملے پر بہت تفصیل سے بات ہوئی ہے۔ حکومت اس پر ایک کمیشن بنانے جا رہی ہے۔ آلات کو بالکل تبدیل کر دیا جائے گا۔ ان کے سافٹ ویئر حکومت دیکھ رہی ہے کہ کون لے کر آیا تھا۔ آلات تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے سوفٹ ویئر بھی بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں بھارت کی طرح اپنی سوفٹ ویئر انڈسٹری کو پروان چڑھانا چاہئیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹ ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اسے چاہئیے کہ وہ بتائے کہ کون سی چیز قانونی ہے اور کون سی قانونی نہیں ہے۔ توقیر شاہ نے یہ مشورہ دیا شہباز شریف کو مگر اعظم خان نے عمران خان کو یہ ایڈوائس نہیں دی۔
گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے معروف صحافی عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ ان آڈیو لیکس میں جس طرح سائفر کے ساتھ کھیلنے کی بات ہو رہی ہے، اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ معاملہ سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ پراپیگنڈا تھا۔ ایک جھوٹ، ایک فینٹسی عمران خان نے بنائی اور لوگوں کو سچ بنا کر دکھائی۔
تحقیقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم بغل تو بجا سکتے ہیں کہ سکیورٹی بریچ ہے مگر یہ اداروں کے درمیان چلنے والی لڑائی ہے کہ آپ کو کبھی پتہ نہیں چلے گا کہ یہ کیسے ہوا ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کب سامنے لائی گئی تھی؟ پیگاسس کا سکینڈل آیا اور عمران خان کا نمبر بھی ان میں شامل تھا۔ فواد چودھری نے کہا تھا کہ تحقیقات ہوں گی مگر نہیں ہوئیں۔ اب بھی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں جس طرح تحقیقات کی بات ہو رہی ہے تو ان کا بھی ایسا ہی حال ہونا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی پروگرام کے میزبان تھے۔ پروگرام پیر سے جمعہ کو رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے نشر کیا جاتا ہے۔