نیا دور نے دو روز قبل دنیا نیوز اور سٹی نیوز نیٹورک کے ہیڈ کوارٹرز میں کرونا وائرس پھیلنے کی خبر دی تھی اور بتایا تھا کہ سٹی نیوز نیٹورک میں 25 کے قریب صحافی کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جبکہ دنیا نیوز کے ہیڈ آفس میں واقع ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں جواد نامی ملازم میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
تاہم اب خبر ہے کہ دنیا نیوز میں کرونا کے 10 سے زائد مزید کیسز سامنے آگئے ہیں۔ دنیا نیوز ذرائع کے مطابق اب تک 40 کے قریب ٹیسٹ کروائے گئے ہیں جن میں سے 10 سے زائد ملازمین میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ ان میں زیادہ تر ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ میں ہی کام کرتے ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ دنیا نیوز کے اعلیٰ سطحی افسران کے دفتر بھی ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے ملحقہ ہیں۔
دفتر میں کام کرنے والے ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت دنیا نیوز کے تین صحافتی ادارے ایک ہی دفتر سے چل رہے ہیں جن کا علیحدہ علیحدہ سٹاف ہے۔ یہاں کام کرنے والے سٹاف میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ چینل انتظامیہ کی جا نب سے کرونا کی بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ بارے کوئی پالیسی نہیں۔ کرونا کا کیس دفتر میں سامنے آنے کے باوجود اب تک صرف اعلیٰ سطحی افسران کے ٹیسٹ بارے غور کیا گیا ہے۔ جبکہ چینل میں تمام تر صحافتی سرگرمیاں جاری ہیں جن کے دوران مکمل طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کی ہی نہیں جا سکتیں۔
سٹی گروپ اور دنیا نیوز کے علاوہ کیپیٹل ٹی وی، چینل 7 ، جی این این اور پبلک نیوز ایسے نمایاں ادارے ہیں جن کے ہیڈ کوارٹرز لاہور میں موجود ہیں اور وہاں کے سٹاف بھی اس حوالے سے سخت پریشان ہیں کیونکہ کسی قسم کی کوئی ٹیسٹنگ نہیں کی جا رہی۔ صحافی روزانہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلہ میں آپس میں ملتے ہیں۔
شعبہ صحت کی رپورٹنگ کرنے والے لاہور کے صحافتی حلقوں میں ممتاز حیثیت کے حامل صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیا دور سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کے میڈیا دفاتر میں کرونا پہنچ چکا ہے اور اگلے دنوں میں کمیونٹی کلسٹر اصول کے تحت کرونا وائرس مزید صحافیوں اور میڈیا دفاتر کو اپنے نرغے میں لے گا۔ میڈیا مالکان کسی صورت بھی چینلز کو آن لائن یا کسی اور بند و بست کی طرف لے جانے پر آمادہ نہیں۔ میڈیا ورکرز کرونا وائرس اپنے گھروں میں لے کر جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں لاہور میں واقع یہ میڈیا دفاتر کرونا کے ہاٹ سپاٹ بن سکتے ہیں۔
لاہور کے نوجوان رپورٹرز کی تنظیم کے ایک سرگرم رکن کا کہنا تھا کہ چینلز کے خلاف انتظامیہ کچھ کر سکتی ہے نہ حکومت۔ سب انکی جیب میں ہیں۔ ورنہ ایک گلی میں 3 کیسز نکل آئیں تو پورا محلہ سیل کر دیا جاتا ہے یہاں اکھٹے 20،20 کیسز سامنے آرہے ہیں اور یہ دفاتر کھلے بھی ہیں اور ملازمین کو نوکری جانے کے ڈر سے روزانہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی موت خریدنے آنا پڑ رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا ورکرز کی جانیں خطرے میں ہیں کمیونٹی ان دفاتر کی وجہ سے خطرے میں پڑ رہی ہے تاہم آپ کسی چینل پر اس حوالے سے کوئی خبر چلتی نہیں دیکھیں گے۔
یادرہے کہ اے آروائی اسلام آباد کے دفتر میں 8 کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد اسے سیل کر دیا گیا تھا اور اس کے بارے میں اطلاع خود اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال نے دی تھی۔
https://twitter.com/Salman_ARY/status/1254681800804311042