سوموار کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 376 ہیلتھ ورکرز اب تک اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں 181 ڈاکٹر جب کہ 55 نرسز ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے 5 ورکرز اب تک اس وبا سے جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں، 152 اپنے گھروں میں زیرِ قرنطینہ ہیں اور 87 صحتیاب ہو چکے ہیں۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ریاض، ملک میں کرونا سے مرنے والے پہلے ڈاکٹر تھے جن کا انتقال 23 مارچ کو ہوا تھا۔
کرونا سے ملک بھر میں تاحال 335 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جب کہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے چند روز قبل اپنی پریس کانفرنس میں بھی ڈاکٹرز کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وبا کے ہاتھوں جان سے جانے والے ڈاکٹر حضرات کے گھر والوں کو سو فیصد پنشن دی جاتی رہے گی اور ان کو الاٹ کیے گئے گھر بھی واپس نہیں لیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ متعدد شہروں میں ڈاکٹرز حکومت کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں۔ کوئٹہ میں ان پر لاٹھی چارج کرنے کے بعد ان کی گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ لاہور میں ڈاکٹروں اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی کے مناظر سامنے آ چکے ہیں۔
کراچی میں کی گئی ایک پریس کانفرنس کے بعد حکومتی جماعت کے ایک ترجمان شہباز گِل نے ڈاکٹروں پر سیاست کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس سے قبل کوئٹہ میں ہونے والے واقعے پر بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ڈاکٹروں پر پشتون تحفظ تحریک کے ایما پر احتجاج کرنے کا بودا الزام لگایا تھا۔