اس تشدد و پرآشوب دورمیں پنجاب نے خوب ستم اٹھائے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق جبر کے اس دور میں ردعمل بھی شدید ہونا تھا، اسی لئے سکھوں کے رہنما گرو تیغ بہادر نے جابر سلطان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔ آپ نے اپنے قول کے عین مطابق اپنا سر دے دیا مگر سر جھکایا نہیں۔
اسی جبر کے خلاف ایک اور آواز پنجاب سے اٹھتی ہے۔ یہ آواز لاکھوں پنجابیوں کے دلوں کی آواز بن جاتی ہے۔ امن، بھائی چارے، انسانیت اور سیکولر آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ندارد۔
اس دور میں سادھوؤں اور صوفیوں کو ’غیرشرعی‘ رویے اپنانے پر تنقید و ظلم بھی سہنے پڑے۔ ان کی آوازیں حکمران وقت اور اس کے حواریوں کے نظام کو چیلنج کر رہی تھیں۔ انہی باغی آوازوں میں بلھے کی آواز نے پنجاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بابا جی نے مذہبی منافرت اور تقسیم کے خلاف نعرہ لگایا۔ انتہائی باغی رویہ اپنانے پر بلھے پرالحاد کے فتوے بھی لگے، مرتد اور دہریے کے القابات بھی ملے، موجودہ دور کے کچھ ’پروفیسرحضرات‘ کا تو ماننا ہے کہ اگر بلھے کو پڑھایا گیا تو ہماری نوجوان نسل کے ’خراب‘ ہونے کا اندیشہ ہے۔ بلھے کی طبیعت کااندازہ اس کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
گل سمجھ لئی تے رولا کیہہ
اے رام،رحیم تے مولا کیہہ
پنجاب کی سیکولرریت میں نانک، کبیر، فرید،وارث شاہ ، شاہ حسین اور بلھا نمایاں ہیں۔ اسی لئے تو یہاں رابن ہوڈ جیسے کردار دلا بھٹی بھی ملتے ہیں جو جابر سلطان کے جابراحکامات سے انکاری ہیں۔ یہاں کئی بڑے مذاہب اور اصلاحی تحریکیں پنپیں۔ پنجاب کی اس ریت کی تاریخ پرانی ہے۔ ہڑپہ کی تہذیب سے نکلی اس روایت کو ان مذکورہ بالا مشاہیر نے جاری رکھا۔
سچ حق ہے اوراس کا ساتھ دینے والے امر ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے بلھے نے سرمستی میں کیا خوب کہا
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور
1849 میں تاج برطانیہ کا سورج پنجاب میں طلوع ہوا اور یوں مکمل برصغیر اس کی راجدھانی بن گیا۔ راج دور میں اکبر کی طرح سیکولر پالیسیاں بنائی گئیں، محکوموں کو مذہبی آزادی ملی۔ اسی دور میں پنجاب کی سیکولر ریت خوب پروان چڑھی۔ اب عیسائیت بھی یہاں فروغ پانے لگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ انہی میں سے ایک بڑی تبدیلی ہندوستان کی تقسیم تھی۔
محمدعلی جناحؒ کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو پڑھی لکھی و ترقی پسند سوچ کی حامل قیادت ملی۔ کچھ سوشل ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی اقتصادی ضرورت تھی۔ یوپی، بہار، بنگال اور بمبئی سے کئی سرمایہ کار، جاگیردار اور نوابوں نے یہاں ہجرت کی۔ قیامِ پاکستان سے ہی بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست کی تقریرمیں ہی ثابت کر دیا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگا، یہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ کوئی مندر جائے، مسجد جائے یا گرجا جائے، تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
افسوس کہ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ قرارداد مقاصد سے شروع ہوئی منافرت کوضیا کی آمریت میں خوب فروغ ملا، جب اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کا سہارا لیا گیا۔ موجودہ دورمیں انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ غالب کا شعر بیان کرنے پر مشعال جیسے طالب علم کا ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیا جاتا ہے۔ آج یہی سوچ بلھے کی کافیوں سے خائف ہے۔
بلھے سے جناح تک کے سفرمیں بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امرتا پریتم کے آنسو بھی تقسیم ہند کے وقت ہوئے ظلم نہ روک سکے۔ آج ہم سب کیدو بن گئے ہیں۔ انسانیت، رواداری اور باہمی بقا کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔ ماضی پرستی نے ہمارے سفر کا رخ بھی موڑ دیا ہے۔
وقت کاتقاضہ ہے کہ پنجاب کی اسی باغیانہ اور سیکولر ریت کو دوبارہ ابھارا جائے اور کلمہ حق کا نعرہ پھر سے بلند ہو کہ انسانوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔
ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے نیوٹن کانام نہ سنا ہو۔ طبیعات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے اس سائنسدان کا تیسرا قانون بتاتا ہے کہ ہرعمل کا ایک ردعمل ہے اور یہ ردعمل اتنا ہی شدید ہوگا جتنا اس پر عمل کیا جائے۔ اسی قانون کے تناظر میں برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں ایسے حکمران بھے گزرے ہیں جو باہمی بقا اور مذہبی رواداری کے اصولوں پر کاربند رہے۔ ان میں نمایاں نام مغل حکمران اکبر کا ہے جسے تاریخ مغل اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہی وراثتی حکمرانی جب اورنگزیب عالمگیر تک پہنچتی ہے تومذہبی جبر، عدم رواداری کا دور دورہ ہوتا ہے، جب باغیوں کو سبق سکھایا جاتا ہے۔ اس دورمیں کئی مشہورباغیوں کی سرکوبی کی گئی۔
اس تشدد و پرآشوب دورمیں پنجاب نے خوب ستم اٹھائے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق جبر کے اس دور میں ردعمل بھی شدید ہونا تھا، اسی لئے سکھوں کے رہنما گرو تیغ بہادر نے جابر سلطان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔ آپ نے اپنے قول کے عین مطابق اپنا سر دے دیا مگر سر جھکایا نہیں۔
اسی جبر کے خلاف ایک اور آواز پنجاب سے اٹھتی ہے۔ یہ آواز لاکھوں پنجابیوں کے دلوں کی آواز بن جاتی ہے۔ امن، بھائی چارے، انسانیت اور سیکولر آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ندارد۔
اس دور میں سادھوؤں اور صوفیوں کو ’غیرشرعی‘ رویے اپنانے پر تنقید و ظلم بھی سہنے پڑے۔ ان کی آوازیں حکمران وقت اور اس کے حواریوں کے نظام کو چیلنج کر رہی تھیں۔ انہی باغی آوازوں میں بلھے کی آواز نے پنجاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بابا جی نے مذہبی منافرت اور تقسیم کے خلاف نعرہ لگایا۔ انتہائی باغی رویہ اپنانے پر بلھے پرالحاد کے فتوے بھی لگے، مرتد اور دہریے کے القابات بھی ملے، موجودہ دور کے کچھ ’پروفیسرحضرات‘ کا تو ماننا ہے کہ اگر بلھے کو پڑھایا گیا تو ہماری نوجوان نسل کے ’خراب‘ ہونے کا اندیشہ ہے۔ بلھے کی طبیعت کااندازہ اس کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
گل سمجھ لئی تے رولا کیہہ
اے رام،رحیم تے مولا کیہہ
پنجاب کی سیکولرریت میں نانک، کبیر، فرید،وارث شاہ ، شاہ حسین اور بلھا نمایاں ہیں۔ اسی لئے تو یہاں رابن ہوڈ جیسے کردار دلا بھٹی بھی ملتے ہیں جو جابر سلطان کے جابراحکامات سے انکاری ہیں۔ یہاں کئی بڑے مذاہب اور اصلاحی تحریکیں پنپیں۔ پنجاب کی اس ریت کی تاریخ پرانی ہے۔ ہڑپہ کی تہذیب سے نکلی اس روایت کو ان مذکورہ بالا مشاہیر نے جاری رکھا۔
سچ حق ہے اوراس کا ساتھ دینے والے امر ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے بلھے نے سرمستی میں کیا خوب کہا
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور
1849 میں تاج برطانیہ کا سورج پنجاب میں طلوع ہوا اور یوں مکمل برصغیر اس کی راجدھانی بن گیا۔ راج دور میں اکبر کی طرح سیکولر پالیسیاں بنائی گئیں، محکوموں کو مذہبی آزادی ملی۔ اسی دور میں پنجاب کی سیکولر ریت خوب پروان چڑھی۔ اب عیسائیت بھی یہاں فروغ پانے لگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ انہی میں سے ایک بڑی تبدیلی ہندوستان کی تقسیم تھی۔
محمدعلی جناحؒ کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو پڑھی لکھی و ترقی پسند سوچ کی حامل قیادت ملی۔ کچھ سوشل ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی اقتصادی ضرورت تھی۔ یوپی، بہار، بنگال اور بمبئی سے کئی سرمایہ کار، جاگیردار اور نوابوں نے یہاں ہجرت کی۔ قیامِ پاکستان سے ہی بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست کی تقریرمیں ہی ثابت کر دیا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگا، یہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ کوئی مندر جائے، مسجد جائے یا گرجا جائے، تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
افسوس کہ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ قرارداد مقاصد سے شروع ہوئی منافرت کوضیا کی آمریت میں خوب فروغ ملا، جب اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کا سہارا لیا گیا۔ موجودہ دورمیں انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ غالب کا شعر بیان کرنے پر مشعال جیسے طالب علم کا ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیا جاتا ہے۔ آج یہی سوچ بلھے کی کافیوں سے خائف ہے۔
بلھے سے جناح تک کے سفرمیں بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امرتا پریتم کے آنسو بھی تقسیم ہند کے وقت ہوئے ظلم نہ روک سکے۔ آج ہم سب کیدو بن گئے ہیں۔ انسانیت، رواداری اور باہمی بقا کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔ ماضی پرستی نے ہمارے سفر کا رخ بھی موڑ دیا ہے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ پنجاب کی اسی باغیانہ اور سیکولر ریت کو دوبارہ ابھارا جائے اور کلمہ حق کا نعرہ پھر سے بلند ہو کہ انسانوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔