کیا نظریہ ارتقا کے مطابق انسان بندر کی اولاد ہیں؟
ارتقا کے بارے میں ایک غلط تصور یہ ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہیں جب کہ ارتقا یا تکامل کے مطابق انسان اور بندر دونوں کسی ایک مخلوق کی اولاد ہیں۔ یعنی ان کا باپ یا جد ایک تھا اور یہ تقریباً 4 ملین سال پہلے جدا ہوئے۔ یعنی انسان اور بندر باپ بیٹا نہیں بلکہ کزن ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں جدا ہوئے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ ایک آج کا انسان بن گیا اور دوسرا بندر، بلکہ ان دونوں میں پہلا فرق اتنا معمولی تھا کہ اصلاً قابلِ توجہ بھی نہ تھا۔ پھر ان دونوں کی نسل میں وہ فرق بڑھتا گیا۔ انسان نے تقریباً 1 لاکھ سال قبل زبان سیکھی، جب کہ اس سے پہلے وہ جانوروں کی طرح ہی اپنے احساسات دوسرے کو منتقل کرتا تھا۔ کھیتی باڑی اور شہری زندگی انسان نے تقریباً 15 ہزار سال قبل سیکھی۔
علما کو نظریہ ارتقا کے جس پہلو پر سب سے زیادہ اعتراض ہے، وہ دین سے ضد ہی نہیں رکھتا
نظریہ ارتقا کے جس پہلو پر علمائے دین کو سب سے زیادہ اعتراض ہے وہ نوع سے نوع کا ارتقا ہے کہ جس میں ایک نوع ارتقا کر کے دوسری نوع میں بدل جائے۔ یعنی انسان پہلے یک خلوی، پھر تیرنے، پھر رینگنے والی مخلوق کی ارتقائی شکل ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صورت دین کے ضد میں ہے؟
تو اس کا جواب ہے کہ یہ صورت بھی دین کی ضد میں نہیں۔ شھید آیت اللہ مطھری، آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ طالقانی، آیت اللہ کمال حیدری اور حوزہ میں ایک بڑی تعداد اس کو بھی نہ تو دین کی ضد سمجھتی ہے اور نہ ہی خارج از امکان!
بقول آیت اللہ جوادی آملی، یہ نظریہ نہ تو خدا و توحید کی ضد میں ہے اور نہ ہی اسلامی انسان شناسی کی ضد میں (کتاب ’انسان از آغاز تا انجام‘)!
کیا نظریہ ارتقا وجودِ الٰہی کا انکار کرتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ نظریہ ارتقا کو مذہب کے خلاف استعمال کرنے والے ملحدین افراد اس کو پیش کرنے کے بعد جو نتائج نکالتے ہیں، کیا وہ نتائج اس سے نکلتے بھی ہیں یا نہیں؟ تو اس کا جواب ہے کہ نہیں، نظریہ ارتقا خدا اور دین کے انکار کی طرف نہیں لے جاتا۔
سب سے بڑی غلطی ملحدین اسی جگہ کرتے ہیں۔ ارتقائے حیات ایک الگ چیز ہے اور پیدائشِ حیات الگ: ارتقائے حیات سے مراد ہے کہ حیات کا ارتقا کیسے ہوا، کس طرح یہ موجودہ شکل تک پہنچی اور اس دوران طے ہونے والے تمام مراحل کا مطالعہ جو سائنس کا موضوع ہے۔
پیدائشِ حیات پر ملحدین کی آئیں بائیں شائیں
پیدائش حیات سے مراد ہے کہ یہ حیات کیسے، کس نے اور کیوں بنائی؟
ملحدین ارتقائے حیات کی بات تو کرتے ہیں لیکن پیدائشِ حیات پر آئیں بائیں شائیں شروع کر دیتے ہیں، جب کہ اصل اختلاف پیدائشِ حیات پر ہی ہے۔
اگر ارتقا کی سائنس کے ماہرین سے گفتگو کی جائے کہ جب آپ پیدائشِ حیات کے مختلف احتمالات دیتے ہیں تو کیا کسی باشعور ہستی یعنی خدا کے خالق ہونے کا احتمال بھی ممکن ہے؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہاں، ایسا ممکن ہے۔
پس ملحدین پر ہمارا اعتراض یہی ہے کہ نظریہ تکاملِ حیات کے ذریعے خدا اور خالق کے انکار کا نتیجہ کیسے لیا جا سکتا ہے؟
کیا سائنس لازماً خدا کا انکار کرتی ہے؟
ارتقا کی سائنس کے بہت سے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم خدا کا انکار نہیں کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ خدا کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ سب کچھ طبعیت کر رہی ہے۔ اور جب کہا جائے کہ اس طبعیت میں سب کچھ کہاں سے آیا تو کبھی شہابِ ثاقب گرنے کا مفروضہ پیش کرتے ہیں تو کبھی Big Bang Theory یا Quantum Physics سے کسی قطعی ثبوت کے بغیر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ارتقائے حیات یا Evolution کی مدد سے خالق کا انکار کرنا کسی بھی سائنسی اصول کے مطابق درست نہیں۔ اگر کسی کو خالق کا انکار کرنا ہے تو ایک قدم آگے جانا پڑے گا اور خالق کے بغیر پیدائشِ حیات کی ایک قاطعانہ دلیل دینی پڑے گی۔ اور اس کی طرف خود ملحدین بھی متوجہ ہیں، اسی لئے ڈاکنز کہتا ہے کہ ‘ہمیں خدا کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ کہ یہ کہ ’خدا ہے ہی نہیں‘۔ رچرڈ ڈاکنز اپنی کتاب The Blind Watch Maker جس کا اردو ترجمہ ’اندھا گھڑی ساز‘ کے نام سے مشعل بکس (https://mashalbooks.org) نے لاھور سے شائع کیا ہے، میں کہتا ہے کہ میری تھیوری فقط یہ بیان کرتی ہے کہ کیا ہوا، لیکن کیسے ہوا، کیوں ہوا، کس نے کیا، کہاں سے ہوا، اس کے بارے میں مجھے کچھ علم نہیں۔ پس اب یہاں تمام قارئینِ مقالہ سے گزارش ہے کہ غور فرمائیں، اگر ارتقا حیات کو درست بھی مان لیا جائے تو نہ تو پیدائش حیات کی توجہیہ ان کے پاس ہے اور نہ ہی ان کی ان باتوں کا نتیجہ خالق اور خدا کا انکار نکلتا ہے۔
ملحدین خدا کا انکار کیوں کرتے ہیں؟
اگر غور کیا جائے تو ملحدین کے خدا کو انکار کرنے کی ایک وجہ علت (Causality) کا معنی نہ سمجھنا ہے۔
ملحدین کے 4 بڑے اشتباہات یہ ہیں:
1۔ فاعل یا بنانے والے کے بغیر کسی چیز کا وجود میں آنا یعنی علت فاعلی کا انکار،
2۔ فاعل یا بنانے والا تو ہے، لیکن فاعل نہ تو کوئی شعور رکھتا ہے نہ ہی مقصد، یعنی علت غائی کا انکار،
3۔ فاعل یا بنانے والا بھی ہے با شعور بھی ہے، لیکن اس کا کوئی ہدف نہیں تھا،
4۔ ایک اچھے انسان سے اچانک کسی برے فعل کا انجام پانا۔
یہاں منکرینِ خدا سب سے بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ علت کے پہلے اور دوسرے معنی کو آپس میں خلط ملط کر دیتے ہیں۔ وہ کائنات میں تمام ہونے والے واقعات کو دوسرے معنی یعنی ہدف و شعور کا نہ ہونے میں لیتے ہیں۔ ان کے مطابق زمین سورج چاند سب گھوم رہے ہیں، بغیر شعور و ہدف کے، جیسے پہاڑ کی چوٹی سے بغیر شعور و ہدف کے پتھر گرتا ہے۔
جب کہ اگر علت کے باشعور نہ ہونے کو مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے اوپر والی سطح یعنی علتِ فاعلی (خدا) بھی ہدف نہ رکھتا ہو۔ اگر طبعیت ہدف نہیں رکھتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیچر کو بنانے والا بھی ہدف و مقصد نہیں رکھتا۔ اسی طرح اگر تصادف (Big Bang) کو مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تصادف کرنے والا نہیں ہے۔ اگر منکرینِ خدا کی یہ بات قبول بھی کر لی جائے کہ جہان میں موجود علتِ مادی بغیر غایت، ہدف، علم و شعور کے سب کچھ کر رہی ہے، یعنی سورج اپنا سارا کام کر رہا ہے لیکن اس کو پتہ نہیں کہ کیا کر رہا ہے، تو اس کا نتیجہ بھی خدا یا خالق کا انکار نہیں نکلتا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ خدا نے ان کو ایسا بنایا کہ یہ بغیر شعور کے سب کچھ کر رہے ہیں۔ جیسا کہ جب آپ قلم کے ساتھ لکھتے ہیں تو ممکن ہے کہ قلم کاغذ و سیاہی کو شعور نہ ہو کہ کیا کر رہے ہیں، لیکن آپ لکھنے والے کو علم و شعور ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
اب آئیے نظریہ تکامل کی تائید میں موجود سائنسی، فلسفی، قرآنی و حدیثی دلائل کو دیکھتے ہیں۔
نظریہ ارتقا کے حق میں قرآن و حدیث سے دلائل
1۔ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ (سورة أل عمران، آیة 33)
جس طرح حضرت ابراہیمؑ اور آل عمران کو مثلاً ہزاروں افراد میں سے منتخب کیا، اسی طرح حضرت آدم کو بھی ہزاروں میں سے انتخاب کیا۔
2۔ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ (سورة ألانبیاء، آیة 30)
نظریہ ارتقا کی سائنس کے مطابق بھی مخلوق کی ابتدا پانی میں ہوئی ہے۔ یہاں کچھ معترضین کے اس اعتراض کا بھی جواب آ جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ انسانی جسم میں 75 فی صد پانی، 20 فی صد کاربن، نائٹروجن، آکسیجن، ہائیڈروجن جیسی گیسیں ہیں، جب کہ مٹی زیادہ سے زیادہ 5 فی صد بنتی ہے تو قرآن نے کیون فقط مٹی سے بنانے کی بات کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے مٹی کے ساتھ ساتھ پانی کا ذکر بھی کیا جو کہ 75 فی صد ہے۔
3۔ قَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً (سورة نوح، آیة 14)
اطوار یعنی مرحلہ بالاتر، آپکی خلقت کے اطوار تھے۔ یعنی آپ مرحلہ بہ مرحلہ خلق ہوئے اور پہلے والے مرحلہ سے بعد والا مرحلہ کامل تر تھا۔
4۔ شیخ صدوق کی کتاب خصال، جلد 2 صفحہ 159، پر امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ خداوند نے جب سے زمین بنائی، سات دورہ مخلوق کو خلق کیا۔ جو انسان تھے علم و شعور رکھتے تھے۔ درحالیکہ فرزندانِ آدم نہیں تھے۔ خداوند نے ان کو پوست زمین سے ہی پیدا کیا، ان کو زمین میں ساکن کیا۔ ایک کے بعد دوسرے کو پھر اس کے بعد آدم کو بنایا جو کہ موجودہ انسان کے باپ ہیں۔ اس حدیث سے ہم زرعی انقلاب کے بعد تمدنی زندگی کے ظہور کی توجیہ کر سکتے ہیں۔
5۔ تفسیر قمی جلد 1 صفحہ 36 پر روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ خداوند نے 70000 سال بعد از جن و انس، موجودہ انسان حضرت آدم کو خلق کیا۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مؤقف یہ نہیں کہ ان آیات و روایات کی تفسیر کسی دوسری طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح نظریہ ارتقا کے حق میں موجود آیات و روایات کی کسی دوسری طرح تاویل کرنا ممکن ہے اسی طرح نظریہ ارتقا کی مخالفت میں موجود آیات و روایات کی بھی کسی دوسری طرح تفسیر کرنا ممکن ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ خواہ مخواہ اس نظریہ کو شجر ممنوعہ نہ سمجھا جائے۔ افراط و تفریط نہ کی جائے، اگر ملحدین ارتقا سے غلط نتائج نکال کر زیادتی کرتے ہیں تو دوسری طرف کچھ دیندار افراد بھی بغیر کسی تجربی دلیل یا برہانِ عقلی و نقلی کے اس نظریہ کی مخالفت کر کے زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
نظریہ ارتقاء کے حق میں سائنسی دلائل
نظریہ ارتقا کے سائنسی دلائل بہت محکم ہیں کہ جن کو رد کرنا دنیا کے کسی بھی انصاف پسند انسان کے لئے ممکن نہیں۔
1۔ انتخاب طبیعی (Natural Selection)
اس کی ملموس مثال ایک پتنگے (moth) کی دی جاتی ہے کہ اس کا رنگ پہلے سفید تھا، لیکن یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد فیکٹریوں کے دھوئیں کی وجہ سے جب درخت سیاہی مائل ہو رہے تھے تو اس سفید پتنگے کی تعداد ختم ہونے لگی کیونکہ ان کو آسانی کے ساتھ دوسرے پرندے سیاہ درختوں پر پہچان لیتے اور کھا جاتے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد سیاہ رنگ کے پتنگے سامنے آ گئے جو کہ دراصل وہی سفید پتنگے تھے، جنہوں نے طبیعیت کے مطابق اپنے آپ کو دوسرے رنگ میں بدل لیا۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
الف۔ وارثت (Inheritance)
جینز اور ڈی این اے کے ذریعے پہلی نسل کی خوبیاں اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔
ب۔ تبدیلی یا دگرگونی (Variation)
موجودہ انسان سے پہلے کے مراحل کے ڈھانچے افریقہ کے غاروں سے برآمد ہوئے ہیں۔ انسان ہی کی طرح کی مخلوقات (نِینڈرتَھال اور ہومو اِریکٹَس) کے فاسلز ڈھانچے دنیا کے مختلف مقامات سے مختلف ممالک کے سائنسدانوں کو مل چکے ہیں۔
اسی طرح زمین پر رہنے والی مخلوقات، من جملہ انسان، میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی ہمارے بدن میں تو کوئی خاص ضرورت نہیں لیکن مچھلی کے لئے ان کا ہونا واجب ہے۔ یا بعض انسانی اعضا جیسے سامنے کے دونوں اطراف میں چوتھے بڑے دانت (کینائن دانت) جو گوشت چبانے کے لئے آج بھی چیتے، بلی، وغیرہ میں واضح موجود ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان کسی ارتقائی مرحلے میں گوشت خور تھا۔ اسی طرح ریڑھ کی ہڈی کے آخری چار مہرے انسانی دم کی باقیات ہیں۔ کان کا ابھار جو آج فقط دس فی صد انسانوں میں باقی ہے لیکن ہمارے ارتقائی چچا زاد، یعنی بندروں، میں آج بھی واضح طور پر موجود ہے۔
پتھروں کی تہہ در تہہ بستر (Bed Rock Ledge) میں سب سے نیچے ایک خلئے، اس کے اوپر چند خلیوں اور پھر ایک جگہ رہنے والی مخلوق مچھلی اور پھر اس کے اوپر دو جگہ پانی خشکی میں رہنے والی مخلوق اور پھر پرندے کے فاسلز کے نشان اس طرح ملے ہیں کہ تکامل کو رد کرنا ناممکن ہے۔
ج۔ زمان (Time)
یہ سب کچھ ایک لمبے عرصے، کروڑوں سالوں میں ہوا۔ حیات کی ابتدا سمندروں کی تاریکیوں میں موجود پانی سے ہوئی، جہاں ایک خلوی مخلوق وجود میں آئی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ مچھلی بنی اور پھر اس مچھلی نے تاریکیوں سے سمندر کی اوپر والی سطح یعنی روشنی کی طرف حرکت کی۔ اس کے بعد ساحل سمندر کی طرف اور ساحل سے خشکی کی جانب منتقل ہوئی۔ اب پانی سے خشکی کا سفر اس طرح طے ہوا کہ سب سے پہلے ایک مچھلی نے خشکی کی جانب حرکت کی تو اتفاقی طور پر ایک لمحے کے لئے خشکی پر آئی اور پھر واپس چلی گئی۔ اس سے اس کے اندر یہ قوت پیدا ہوئی کہ ایک لمحے کے لئے خشکی پر رہ سکتی تھی۔ اس کے بعد والی نسل میں سے کچھ مچھلیاں زیادہ لمحات خشکی پر گزار سکتی تھیں۔ نسل در نسل یہ تبدیلیاں جینز کے ذریعے وارثت میں منتقل ہوتی رہیں اور ہر نسل میں سے کچھ مچھلیوں میں مزید تبدیلیاں بھی آتی رہیں۔ کئی ہزار سال بعد مچھلی کی ایک خاص قسم نے اپنی غذا حاصل کرنے کے لئے ایک دن تک خشکی پر رہنے کے بعد پانی میں جانا شروع کیا۔ لاکھوں سال بعد ایک ایسی مخلوق وجود میں آئی جو خشکی اور پانی دونوں جگہ رہ سکتی تھی۔ جیسے آج کل مگرمچھ، کچھوے یا سانپ دونوں جگہ رہ سکتے ہیں۔ پھر اسی عمل سے ایسے رینگنے والے جاندار بنے جو فقط خشکی کے ساتھ مخصوص ہو گئے۔
2۔ انفجارِ عظیم (Big Bang) اور حرکتِ جوہری
انفجارِ عظیم کائنات کی پیدائش کی توجیہ کرتا ہے اور کا تعلق فزکس کے ساتھ ہے۔ اس کے مطابق پوری کائنات ایک ذرے سے شروع ہوئی اور مسلسل وسعت کثرت، تنوع اور تکامل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک طرح کی وحدت در کثرت ہے۔ کچھ مسلمان علما قرآن کی آیت: وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (سورة الذاریات، آیة 47) سے بھی اس کی تائید لیتے ہیں۔ اگر ہم ملا صدرا کے حرکتِ جوہری کے تصور کو دیکھیں تو اس سے مشابہت ملتی ہے۔ اس کے مطابق عالم ہیولائے واحد سے شروع ہوا، حرکتِ جوہری کی وجہ سے مسلسل کثرت، تنوع اور تکامل کی طرف حرکت کر رہا ہے۔ یہی اصول نظریہ ارتقا پر بھی لاگو ہوتا ہے، کہ جس کے مطابق حیات ایک خلئے سے شروع ہو کر مسلسل کثرت، تنوع اور تکامل کی طرف جا رہی ہے۔
3۔ مختلف براعظموں میں مختلف حیاتیاتی سسٹم
اس جہان میں اگرچہ ایشیا، یورپ، افریقہ آپس میں ملے ہوئے ہیں لیکن آسٹریلیا، مڈاگاسکر یا امریکہ کو دیکھیں جو ان سے جدا ہیں، تو وہاں ہمیں ایسا حیاتیاتی نظام ملتا ہے جو باقی جگہوں پر نہیں۔ مثلاً ایسے جانور جو پستان دار بھی ہیں اور انڈے بھی دیتے ہیں۔
پس یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر جگہ طبیعی حالات کے مطابق مخلوقات کا ارتقا ہوا ہے۔
فلسفی اعتبار سے تکامل یا ارتقا
ہم اگر اسلامی فلسفے کے اعتبار سے دیکھیں تو ارتقا اور تکامل کے نزدیک مطالب وہاں بھی ملتے ہیں۔ ملا صدرا سترہویں صدی عیسوی میں گزرنے والے معروف شیعہ مسلمان فلاسفر ہیں، جن کی کتب برصغیر میں تین صدیوں تک دارالعلوم فرنگی محل کے نصاب کا حصہ رہی ہیں۔ ان کی حکمتِ متعالیہ کے مطابق ہر بالاتر مرتبہ نیچے والے مرتبہ کے لئے روح ہے، اور ہر نیچے والا مرتبہ اوپر والے کے لئے جسم ہے۔ بدن مثالی اگرچہ خود جسم ہے لیکن بدنِ مادی کے لئے روح ہے۔ عالمِ مادہ عالمِ مثال کے لئے بدن جب کہ عالمِ مثال، عالمِ مادہ کی روح ہے۔ حرکتِ جوہری کے مطابق ہر مرتبہ جو فعلیت میں تبدیل ہو جاتا ہے وہ مرتبہ بعدی کے لئے مادہ واقع ہو جاتا ہے۔ اور جب یہ مرتبہ فعلیت میں تبدیل ہو جاتا ہے پھر یہی مرتبہ بعدی کے لئے مادہ قرار پاتا ہے۔ اس طرح حرکتِ جوہری اپنا سفرِ تکامل طے کرتی ہے۔ البتہ جسمِ شي کبھی روح نہیں بنتا، بلکہ روحِ اشیا ابتداءِ خلقت میں مادی ہوتی ہے اور حرکتِ جوہری کی برکت سے تجرد کی طرف ارتقا کرتی ہے۔ ملا صدرا اور امام خمینی کے مطابق انسان کا مادی جسم بھی تکامل کرتا ہے اور اسی مادی جسم کے باطن میں اس جسم کی ارتقاٸی و تکاملی شکل و صورت یعنی برزخی جسم وجود میں آتا ہے اور بدنِ بزرخی کا تکاملی و ارتقاٸی مرتبہ بدنِ اخروی ہے۔
پس حرکتِ جوہری یا بعض دیگر مطالب فلسفی میں نظریہ ارتقا کے ساتھ کافی شباہت پائی جاتی ہے۔
نتیجہ
یہ درست ہے کہ بعض دینی منابع تکامل کی نفی کی جانب ظہور رکھتے ہیں لیکن اگر بعض دوسرے دینی ادلہ کو دیکھیں تو تائید بھی ممکن ہے۔ اس نظریہ کی خواہ مخواہ مخالفت برے آثار رکھتی ہے کیونکہ دنیا میں مختلف ملکوں، ملتوں، ادیان و مذاہب کے ماننے والے ہزاروں سائنس دان جب بغیر تعصب کے خالص علمی بنیادوں پر اس نظریہ کو درست سمجھتے ہیں اور پھر کسی مذہبی لیڈر سے سنتے ہیں کہ دین نظریہ ارتقا کو باطل سمجھتا ہے، تو یہ سائنس دان ان مذہبی افراد یا حتیٰ کہ دین کو باطل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
علامہ م ۔ ن ۔ خان ایک جید عالم دین ہیں اور حوزہ علمیہ قم میں زیر تعلیم ہیں