حال ہی میں عالمی خبر رساں ادارے ’وائس آف امریکہ‘ نے پاکستان کے صحافتی حالات اور موجودہ حکومت سے متعلق کہا کہ’ رپورٹرزود آؤٹ بارڈرز‘ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو صحافتی آزادیوں کے حوالے سے 5 بدترین ترین ممالک میں شامل کیا گیا اور اسی رپورٹ میں 2020 میں چار صحافیوں کی اموات کا تذکرہ بھی کیا گیا ۔ وائس آف امریکہ کے مطابق موجودہ حکومت صحافیوں کے معاملے میں سنجیدہ نہیں، وزیر اعظم عمران خان نے 2018 کے انتخابات کے بعد جب سے اقتدار سنبھالا ہے تب سے ان کی حکومت کے پریس اور نشریاتی کارکنوں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ مزید بڑھا ہے جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے فوج کی مدد سے میڈیا پر کریک ڈاؤن کر کے اپنا اقتدار سنبھالا ہے اور ایسے واقعات کی تاریخ پاکستان میں پرانی ہے ۔2018 میں کریک ڈاؤن کے دوران ملک بھر سے 3000 سے زائد صحافی متاثر ہوئے اور بے روزگاری کی جانب دکھیلے گئے ۔
90 کی دہائی میں بھی آمریت اور اقتدار کی جنگ میں جب جمہوری اقدار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی جاتی رہی تو صحافیوں نے ان سازشوں کو ناکام بنایا ۔اگر جمہوریت پسند صحافی موجود نا ہوتے تو اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کی ایک ایسی کالونی ہوتا جہاں جمہوریت کا نام و نشان نا ہوتا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد کے حالات سے بھی بدتر حالات ہوتے۔ 90 کی دہائی میں 500 سے زائد جمہوریت پسند لیڈران کو گولی سے اڑا کر فرانس اور روس کے انقلاب کی ایک نئی صورت پیش کرنے کا منصوبہ بھی ایک صحافی نے ناکام بنا کر ملک کوخونی انقلاب سے بچایا ۔اس خوفناک کہانی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال واہلہ (جنہوں نے ایٹمی پلانٹ کہوٹہ کی عمارت ڈیزائن کی تھی) نے اہم انکشافات کر رکھے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال واہلہ اپنے ایک انٹرویو میں جاوید چوہدری کو بتاتے ہیں کہ 1992 میں کسی پروجیکٹ کو پاکستان میں شروع کرنے کے حوالے سے امریکی سینیٹر نے ان سے 10 لاکھ ڈالر کا چیک لینے سے انکار کر دیا اور ڈاکٹر اقبال واہلہ سے کہا کہ یہ کام اب آپ چھوڑ دیں کیونکہ پاکستان میں حکومت بدلنے والی ہے لہذا یہ کام اب وہ خود دیکھ لیں گے ۔ڈاکٹر واہلہ کہتے ہیں کہ میرے لئے یہ خبر بلکل حیران کن اور نئی تھی کیونکہ پاکستان میں حالات بالکل پر امن تھے۔ ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں کہ وہ اگلے ماہ ہی پاکستان واپس آ گئے وہاں اپنے ذرائع سے پتہ لگوایا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ حالات میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہے۔ جولائی کے آخر میں ڈاکٹر واہلہ کی جب آرمی چیف جنرل آصف نواز سے ملاقات ہوئی تو ڈاکٹر واہلہ ان کے تبدیل لہجے سے بہت کچھ سمجھ گئے۔
ڈاکٹر واہلہ نے اپنے انٹرویو میں ذرائع کا تذکرہ کئے بغیر کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ ستمبر 1992 میں ایک بہت بڑا انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ کچھ لوگ غلام اسحاق اور نواز شریف کی چھٹی کر کے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت لانا چاہتے تھے۔ یہ فارمولا اس حد تک طے ہو چکا تھا کہ آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو وزیر اعظم بننے کے لئے تیار کر لیا گیا تھا، اس نے شیروانی بھی سلوا لی تھی جبکہ وزیر خزانہ کہ عہدے کے لئے شاہد جاوید برکی تیار بیٹھے تھے اور وزیر اطلاعات بننے کی پیش کش ڈاکٹر واہلہ کو کی گئی ۔واہلہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس خونی کھیل میں شامل ہونے سے منع کر دیا کیونکہ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اقتدار کے بعد فوراً پاکستان میں پانچ سو کے قریب اہم لوگوں کو گولی سے اڑا دیا جائے گا بعدازاں ناجائز طریقوں سے دولت کمانے والوں کو ٹارچر سیل میں بند کیا جائے گا اور کالا دھن وصول کیا جائے گا۔ گو کہ یہ منصوبہ بڑا آئیڈیل انقلاب تھا لیکن میں اس کشت و خون میں نہیں پڑنا چاہتا تھا تاہم میں نے اس منصوبے کو صیغہ راز میں رکھنے کا وعدہ کیا کیونکہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہ تھا وگرنہ پانچ سو مقتولین میں ایک نام میرا بھی ہوتا۔
ڈاکٹر واہلہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ منصوبہ آگے چل کر کامیاب ہو جاتا لیکن 17 اکتوبر 1993 کو پاکستان کے ایک بڑے اخبار کے چیف ایڈیٹر نے یہ ساری کہانی نواز شریف کو بتا دی۔ اس چیف ایڈیٹر کو انقلابیوں نے اپنا بندہ سمجھ کر اعتماد میں لینے کی غلطی کر لی تھی، نواز شریف محتاط ہو گئے اور انقلابی فوراً بکھر گئے۔ اس سے قبل نواز شریف کے خلاف کوئی مزید سازش تیار ہوتی آصف نواز انتقال کر گئے۔ ان انقلابیوں کا یہ کہنا تھا کہ ان کو قتل کیا گیا ہے اور یوں انقلابیوں کی یہ سازش اپنی موت مر گئی ۔
آج میڈیا کو ماضی و مستقبل کا طعنے مارنے والی غیر جمہوری سوچ اور قوتوں کو یہ نہیں بھولنا چائیے کہ جس ملک میں وہ میڈیا پر دھمکیوں ، حملوں اور پابندیوں کا سہارا لے کر ان کی زبان بند کرنا چاہتے ہیں اگر 93 میں ایک صحافی نے اپنی زبان بند رکھ لی ہوتی تو ملک کے حالات یہ نہ ہوتے۔ آج جو کٹھ پتلی حکومت اپنی انا اور تکبر میں میڈیا کو دبانے اور طاقت کے نشے میں دھت ہے وہ اسی حالت میں ہوتی جو حالت 47 سے قبل مسلمانوں کی تھی اور یہ سب آئی ایم ایف کے کسی کارندے کو جی صاحب جی صاحب پکار رہے ہوتے۔