چھٹی کرنے کے رہنما اصولوں میں اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کو کب اور کس طرح اس بڑے فریضے کو انجام دینا ہے ۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر اگلے دن چھٹی کرنا مطلوب ہو تو ایک دن پہلے ماحول بنائیں، جس طرح سیاسی جماعتیں جلسے سے پہلے عوام کو ’موٹی ویٹ‘ کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر زور سے زور کھانسیں، چھینک اس لیے نہیں لے سکتے کیونکہ یہ آپ کی خواہش پر حاضر نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ کھانسی آپ کی فرمائش پر جب چاہے ہوسکتی ہے۔ تو جناب بات بے بات پر کھانس کھانس کر دوسروں پر یہ باور کرائیں کہ واقعی آپ بیمار ہیں یا ہونے والے ہیں تاکہ اگر آپ چھٹی کریں تو اچھی خاصی شہادتیں آپ کے حق میں جمع ہوجائیں۔
ہمیشہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ چھٹی والے دن ہی واٹس ایپ یا ایس ایم ایس بھیج کر اپنے افسر کو یہ اطلاع دیں کہ ناسازی طبیعت کے باعث دفتر کو دیدار نہیں کراسکتے۔ فون کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ بیمار ہونے کی جعلی اداکاری ہوسکتا ہے کہ آپ کے ’صوتی تاثرات‘ سے چغلی دے جائیں۔ اس بات کو پلو سے باندھ لیں کہ چھٹی کا مزا اٹھاتے وقت اگر دفتر سے فون آجائے تو کوشش کریں کہ آپ اسے ’ریسیو‘ نہ کریں۔نصف بہتر کو ’شریک جرم‘ بناتے ہوئے آپ یہ پیغام دے کر ثابت کرسکتے ہیں کہ آپ کی اس قدر حالت پتلی ہے کہ آپ بات تک نہیں کرسکتے۔
اسی طرح اگر آپ گاڑی یا موٹر سائیکل پر دفتر آتے ہیں، تو چھٹی کے لیے اس کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ چھٹی کے حصول کے لیے یہ خراب بھی ہوسکتی ہے اور آپ کو دھوکہ بھی آپ کی پسند کے مطابق دے سکتی ہے اور وہ بھی اُس وقت جب آپ دفتر کے لیے نکل رہے ہوں۔ کوشش کریں کہ جس ہفتے چھٹی کا آپ کا دل چاہ رہا ہوتوموٹر سائیکل یا گاڑی کی شان میں دو تین گستاخیاں کردیں۔بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک دو دفتری احباب سے اچھے میکنک کی معلومات بھی لے لیں۔ استفسار کیا جائے تو عرض کردیں کہ گاڑی پرابلم کررہی ہے اور ہاں اگر آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں آتے جاتے ہیں تو کوئی اور بہانہ سوچ کر رکھیں۔
وہ ’اناڑی دوست‘ جو بیماری کا بہانہ تراش کرصرف ایک چھٹی کرتے ہیں، ان سے التماس ہے کہ وہ اس کا دورانیہ دو سے تین دن تک رکھیں، کیونکہ اس طرح طبیعت کی سنگینی کا احساس زیادہ ہوگا۔ بصورت دیگر ایک چھٹی کرنے کے بعد جیب میں گولیوں کی پڑیاں رکھ لیں، جو دوپہر یا کسی اور وقت دفتری احباب کے سامنے کھا کر یہ یقین دلا سکتے ہیں کہ ’خوراک جاری ہے۔‘
کوشش یہ کریں کہ اپنے رشتے داروں کے بارے میں زیادہ معلومات کسی کو نہ دیں۔ ہاں ادھیڑ عمر رشتے داروں کی بیماری کے بارے میں وقتاً فوقتاً بتاتے رہیں کیونکہ ان میں سے کسی ایک کو دارفانی بھیج کر آپ خود کو دفتر نہ بھیجنے کا سہارہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ عام طور پر ایسے رشتے دار اچانک ہی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اسی لیے یقین مانیں یہ آپ کے لیے ’ قیمتی اثاثہ‘ ہیں۔ جن کا استعمال آپ سوچ سمجھ کر کرسکتے ہیں۔
ایک اور بات ذہن نشین کرلیں کہ دفتر اور آ پ کی راہ میں اہم رکاوٹ ’بجلی‘ بھی بن سکتی ہے۔ ماشااللہ ہمارے ملک میں یہ وہ شے ہے، جس کے آنے اور جانے کا علم عوام کو کم کم ہی ہوتا ہے اور یہ صبح سویرے اُس وقت آپ کے لیے راحت کا پیغام لاسکتی ہے، جب آپ دفتر جانے کے لیے تیار ہوں ،اپنی چھٹی کرنے کی سب سے اہم وجہ کا ملبہ محکمہ بجلی پر گرا کر آپ بچ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ مکالمہ ادا کیا جاسکتا ہے کہ ’میں تو تیار ی کررہا تھا، لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے استری نہ ہوسکے۔ ابھی تک نہیں آئی، آتی ہے تو آتاہوں۔‘ اور یہ کب آئے گی، اس کا انحصار آپ پر ہے۔
چھٹی کرنے کے آئین میں یہ واضح لکھا ہے کہ پیٹ کی خرابی کا کہہ کر آپ دفتر جانے سے بآسانی جان چھڑ اسکتے ہیں۔ تو ڈائری میں اس ’پیاری سی تکلیف‘ کو بھی لکھ لیں۔جو مخالف پر یقینی طور پر یہ باور کراسکتی ہے کہ آپ کرسی پر بیٹھنے کے بجائے بار بار کہیں اور بیٹھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایک اور چیز آنکھ وقت مقررہ پر نہ کھلنے کا بہانہ ہے تو آسان لیکن یہ بعض دفعہ نقصان دہ اس لیے ثابت ہوسکتا ہے کہ اسے پیش کرنے پر یہ جواب بھی مل سکتا ہے کہ ’ کوئی بات نہیں زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ اب آجاؤں۔‘ اسی لیے آنکھ دیر سے کھلنے کی اس وجہ کو چھٹی کرنے کے سب سے آخر ی خانے میں رکھیں تو بہتر ہوگا۔
ایک اور بات بچوں کی بیماری کا بہانہ بنا کر قطعی طور پر چھٹی نہ کریں، یہ ’ اخلاقی طور ‘ پر زیب نہیں دیتا۔ ہاں بیگم صاحبہ کا بولا جاسکتا ہے، کیونکہ ہر خاوند عام طور پر نصف بہتر کے بار بار موڈ یا مزاج خراب ہونے کو ’بیماری‘ ہی گردانتا ہے۔
جتنا متاثر کن اور ٹھوس بہانہ ہوگا، اسی اعتبار سے آپ کی چھٹی کرنے پر کوئی آپ کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کرے گا۔ ان دنوں تو کورونا نے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ لہذا کھانسی، نزلہ، بخار یا سر درد کا کہہ کر آپ مزے سے ایک دو دن دفتر سے راہ فرار اختیار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی ’بیمار انسان‘ کو اپنے آس پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔
اگر آپ صنف نازک ہیں تو آپ اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ آپ کے دفتر سے غائب ہونے پر آپ کو زیادہ سوالات کی بوچھاڑ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ عام طور پر ہمارے یہاں خواتین کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔
یہ تو چھٹی حاصل کرنے کے رہنما اصول ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ یہ بہانے زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔ بہتر یہ ہوگا کہ سیدھی شرافت سے دفتر جائیں اور کام پر دل لگائیں۔ ہفتے میں ایک چھٹی مل جاتی ہے ناں کافی نہیں وہ۔اور جناب کورونا کی وجہ سے کئی اداروں میں ’ورک ایٹ ہوم‘ بھی تو ہورہا ہے۔ دل نہیں بھرا گھر میں رہ رہ کر۔ تو پھر کیا ضرورت ہے بہانہ تراشنے کی۔۔۔؟ اور جناب سب سے بڑی بات تو یہ ' نیا پاکستان ' بھی تو بنانا ہے ۔ اگر اسی طرح چھٹیاں کرتے رہیں گے تو کیسے ہوگا یہ کام آسان