حمزہ شہباز نے لاہور ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو فریق بنایا گیا ہے جب کہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ لاہور ہائیکورٹ حلف سے متعلق احکامات جاری کر چکی ہے لیکن عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، گورنر پنجاب نے ایک بار پھر عدالتی حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے لہٰذا لاہور ہائیکورٹ حلف لینے کے لیے نمائندہ مقرر کرے۔
درخواست میں استدعا کی گئی لاہور ہائیکورٹ حلف لینے کے لیے وقت اور جگہ کا بھی تعین کرے، حلف نہ لینے والوں کے اقدامات خلاف آئین قرار دیے جائیں، صوبے کو آئینی طریقے سے چلانے کے لیے حلف لینے کا حکم دیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ میں درخواست پر سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس جواد حسن نے حمزہ کےوکیل اشتر اوصاف سے مکالمہ کیا کہ آپ توہین عدالت کا کیس کیوں نہیں کرتے، اس پر انہوں نے کہا کہ وہ ہم کرسکتے ہیں، میرے موکل نے ابھی صرف حلف برداری کا معاملہ عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا ہے۔
جسٹس جواد حسن نے کہاکہ چیف جسٹس کا کیا حکم تھا، میں نے تو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے، عدالت کے فیصلے نہیں مانے جا رہے، یہ عدالت کی عزت کا سوال ہے۔
جسٹس جواد نے کہا کہ مجھے آئین میں راستہ نظر آئے تو میں چل پڑتا ہوں، کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ ہائیکورٹ کے حکم کو نہ مانے۔
اشتر اوصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ حلف نہ لے کر آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے،کورٹ نے سابق وزیراعظم کو توہین عدالت میں 2 منٹ کی سزا دی تھی، توہین عدالت کی سزا کے بعد وزیراعظم کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
دورانِ سماعت عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ حکومت کیا کہتی ہے، حکومت کے ذہن میں کیا ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم 3 بار کہہ چکے ہیں کہ حلف کیلئے کسی فرد کو نامزد کریں۔
جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت کو صرف 30 منٹ سے زیادہ نہیں چاہئیں، اس کے بعد عدالت نے سماعت 2 بجے تک ملتوی کردی۔
بعد ازاں کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے حمزہ شہباز کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا کیس کیا ہے کہ یہ آئین ہے یہ قانون ہے اس کو کوئی مان نہیں رہا، آرٹیکل 5 پر مجھے بتائیں۔
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ صوبے میں وزیر اعلیٰ نہیں ہے، نقصان کس کو ہو رہا ہے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے کیس میں لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔