خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز شریف کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب حلف برداری کیلئے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ جسٹس جواد حسن نے درخواست پر سماعت کی۔ صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن کا کہنا تھا کہ عدالت کا وقت گزر چکا ہے، اس درخواست کو کیسے سنا جا سکتا ہے۔ اس پر ن لیگ کے وکیل اشتر اوصاف علی نے کہا تھا کہ بنیادی حقوق کے لئے وقت بڑھایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ عدلیہ کے رولز میں درج ہے۔
جسٹس جواد حسن کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ جج کا کام تو قانون کے مطابق کام کرنا ہے۔ میں نے تو ابھی سب کچھ پڑھنا ہے۔ بتایا جائے کہ اس پر چیف جسٹس نے کیا حکم دیا تھا ؟ ایڈووکیٹ اشتر اوصاف علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ کا حلف 28 اپریل تک کرایا جائے۔ لیکن حلف نہ لے کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اس پر معزز جج جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ہائیکورٹ کے حکم کو نہ مانے، اس کی کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے
وکیل اشتر اوصاف علی کا عدالت سے کہنا تھا کہ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ پاکستانی آئین پر عمل نہیں کر رہے۔ اس پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ مسلم لیگ ن توہین عدالت کا کیس کیوں نہیں کرتی؟
اس پر مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ ایسا ہم کر سکتے ہیں لیکن میرے موکل حمزہ شہباز شریف نے ابھی صرف یہی معاملہ عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ ان کا منتخب نمائندہ ابھی تک کام نہیں کر رہا۔
لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ مجھے آئین میں راستہ نظر آئے تو میں چل پڑتا ہوں۔ یہ عدالت کی عزت کا سوال ہے۔ عدالت کے فیصلے نہیں مانے جا رہے۔ وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالت کورٹ نے سابق وزیراعظم کو توہین عدالت میں دو منٹس کی سزا دی تھی۔ اس سزا کے بعد ان کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اس معاملے میں حکومت کا کیا موقف ہے؟ حکومت کیا سوچ رہی ہے؟ وزیراعلیٰ کے انتخاب کو تو چیلنج نہیں کیا گیا، عدالت کو صرف 30 منٹس سے زیادہ نہیں چاہیں۔