پاکستان ریلویز کے ملازمین دورانِ سروس جن مشکلات، دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں شاید ہی کسی اور سرکاری ادارے کے ملازمین کو ایسی پریشانیوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ یہ اپنے پیاروں سے سینکڑوں میل دور جنگلوں، تپتے صحراؤں، ٹھٹھرتے میدانوں اور سنگلاخ چٹانوں کی رفاقت میں ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں۔ یہاں دورانِ سروس انہیں جن دکھوں، تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی لمبی تفصیل ہے جس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
ان تمام تر پریشانیوں اور تکالیف کے باوجود یہ ملازمین اپنی ڈیوٹیاں خندہ پیشانی، عزم، حوصلے اور ایمانداری کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں۔ دوران سروس ہر ایک ملازم کی دو اہم ترجیحات ہوتی ہیں؛ ایک تو یہ کہ اپنے ادارے کی ساکھ کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیں گے اور دوسری خواہش یہ کہ ان کا خاندان معاشرے میں باوقار انداز میں زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے اور جب یہ اپنی سروس مکمل کر چکیں تو یہ اس معاشرے میں عزت اور وقار کے ساتھ باقی ماندہ زندگی برابری کے احساس کے ساتھ گزار سکیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اِن کے اہل خانہ کے سر پر بھی اپنی چھت ہو گی۔ یہ بھی اپنے جواں سال بیٹوں کے سروں پر سہرے سجائیں گے۔ اپنی بیٹیوں کے ماتھے پر جھومر سجا کر ان کے ہاتھوں پر مہندی رچا کر ان کی ڈولیوں کو سجا کر ان کے گھروں کو باعزت طریقے سے روانہ کریں گے۔
مگر انتہائی قابل افسوس بات ہے کہ جن محنت کشوں نے بڑی جاں فِشانی کے ساتھ اپنی زندگی کے 30 سے 40 سال اپنے ادارے اور ملک و قوم کی خدمت میں گزارے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، آج ان محنت کشوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ادارے اور ریاست کی جانب سے جس بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کی ہمارے معاشرے میں دوسری مثال نہیں ملتی۔
اپنی سروس مکمل کرنے کے بعد اور دوران سروس وفات پا جانے والے ملازمین کے خاندانوں کو ریاست کی جانب سے ان کے واجبات کی ادائیگی نہ کئے جانے کی وجہ سے یہ ضعیف العمر ریٹائرڈ ملازمین، بیوائیں اور یتیم بچے معاشی اور معاشرتی طور پر انتہائی کسمپرسی اور بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ محنت کش معاشی بد حالی کے سبب ذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار ہو کر، مختلف قسم کی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو کر اوار معذوری کا شکار ہو کر ویل چیئر اور چارپائیوں پر آ چکے ہیں۔ اکثریت بیماریوں کی تاب نہ لا کر اپنی آنکھوں میں اپنے جواں سال بچوں کے ماتھے پر سہرے سجانے، بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے ڈولی میں بٹھانے اور اپنے بچوں کے سروں پر اپنی چھت ہونے کے خواب سجائے ہوئے بے بسی اور بے کسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس دارِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔
باقی ماندہ اپنے حقوق کے حصول کی مد میں ارباب اختیار کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں مگر ان کی داد و فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ جبکہ یہ ریاست کی اولین ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے کہ وہ ان محنت کشوں کی جانب سے پیش کی جانے والی اعلیٰ خدمات اور قربانیوں کے صلے میں ان کےحقوق کی ادائیگی بڑی خندہ پیشانی اور جذبہ ایثار کے ساتھ کرتی۔
؎ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
چِہ جائیکہ ریاست کی جانب سے ان محنت کشوں کو ان کے جائز اور بنیادی حقوق کے حصول میں آسانیاں پیدا کی جاتیں، الٹا ان کے حقوق حاصل کرنے کی راہ میں اس قدر پیچیدگیاں، پریشانیاں اور مشکلات کھڑی کر دی گئی ہیں کہ ان محنت کشوں کو اپنے حقوق کے حصول کی خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی ہے۔ ان قانونی پیچیدگیوں اور بھول بھلیوں کے سبب ان کی عزت نفس بھی مجروح ہونے سے محفوظ نہیں رہ پاتی۔ باقی تمام واجبات کی ادائیگیاں تو اپنی جگہ مگر بے حسی، لا قانونیت اور مردہ ضمیری کی یہ حد ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے واضح ہدایات کے باوجود ان کو ان کی ماہانہ پنشن کی ادائیگی بھی بروقت نہیں کی جا رہی۔
ان ضعیف العمر پنشنرز، ان کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی زندگی کا تمام تر دارومدار اس پنشن کی مد میں ملنے والی رقم پر ہوتا ہے۔ پنشن کے علاوہ ان کا اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا۔ پنشن کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں انہیں اس معاشرے میں جن کٹھن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے یہ ادارے، ریاست اور حکمرانوں کے لیے شرم کا مقام ہے۔ پاکستان ریلویز کے پنشنرز کی ادائیگی کے عمل کو اتنا طویل اور بوجھل بنا دیا گیا ہے کہ پنشن کی ادائیگی پچھلے ایک سال سے مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔
وزارت ریلوے کے مالیاتی ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے پنشن کی مد میں درکار فنڈ کیلئے ہر ماہ کی 22 تاریخ کو وزارت خزانہ کو درخواست بھیجی جاتی ہے۔ التجا کی جاتی ہے کہ پنشنرز کو ان کی پنشن کی ادائیگی کے لیے فنڈ جلد مہیا کئے جائیں تا کہ ان کی پنشن کی بروقت ادائیگی کر دی جائے۔ وزارت خزانہ آفس اس درخواست پر عمل درآمد کر کے اس درخواست کو ایک ہفتے میں نمٹا دے تو اس کو پنشنرز کے لیے خوش بختی کی علامت سمجھا جائے وگرنہ دوسرا ہفتہ بھی اسی کارروائی میں گزار دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد اے جی پی آر کی اپنی بھول بھلیوں والا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کھیل کو کھیلنے کے لیے انہیں بھی دو سے تین روز درکار ہوتے ہیں۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد کہیں جا کر اس پنشن کی مد میں درکار فنڈ کو سٹیٹ بینک کی رونق بننا نصیب ہوتا ہے۔ سٹیٹ بینک کی راہداریوں سے ہوتا ہوا یہ فنڈ اب پاکستان میں موجود مختلف کمرشل بینکوں کو بھیج دیا جاتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پر یہ مثال صادر آتی ہے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
پاکستان کے کمرشل بینکوں نے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اپنی اپنی پالیسیاں ترتیب دی ہوئی ہیں کیونکہ ان کو پنشنرز کی ترجیحات کے مقابلے میں اپنی ترجیحات زیادہ عزیز ہیں۔ بظاہر تو یہ رقم پنشنرز کی امانت ہوتی ہے مگر حقیقت اس کے یکسر مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے یہ پنشنرز کی پنشن اپنی سہولت کے مطابق ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پنشنرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قانون اور قاعدے بنائے گئے ہیں جن کے مطابق تمام کمرشل بینکوں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ پنشنرز کو اولین ترجیح دے کر ان کی پنشن کی رقم ان کے اکاؤنٹ میں بروقت منتقل کرنے کے پابند ہوں گے۔
محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ احکامات کمرشل بینکوں کے نزدیک کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ یہ احکامات صرف کاغذ کے ٹکڑے کی زینت بننے تک محدود ہیں۔ ضعیف، لاغر، بیمار اور معاشی حالات کے ستائے ہوئے یہ پنشنرز جب اپنی پنشن کی وصولی کے لیے بینکوں میں پہنچتے ہیں تو انہیں بینک انتظامیہ کی جانب سے جس بے توقیری اور ہتک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی کسی بھی انسانی معاشرے میں مثال نہیں ملتی۔ کمر شل بینکوں کے برتاؤ اور سخت گیر رویوں سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ ان ضعیف العمر پنشنرز، بیواؤں اور یتیم بچوں کا وجود ان کمرشل بینکوں پر ایک بھاری بوجھ ہے جبکہ کریڈٹ کارڈ سروس، ایس ایم ایس اور باقی دوسری سہولیات کی مد میں ان کمرشل بینکوں کو پنشنرز سے لاکھوں روپے وصول ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود سٹیٹ بینک سے پنشن کی مد میں درکار فنڈ ان بینکوں کو منتقل ہو جانے کے بعد کمرشل بینک اس رقم کو دو تین روز تک اپنے پاس رکھنے کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔
یہ پنشنرز کے ساتھ جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام چلاتے ہیں۔ پنشنرز کی پنشن کے فنڈ ان کے پاس موجود ہونے کے باوجود یہ مختلف حیلے اور بہانے تراش کر ان کی پنشن کی رقم کبھی بھی بروقت ان کے اکاؤنٹ میں منتقل نہیں کرتے۔ اس کے باعث ان مجبور و لاچار پنشنرز کو بیماری کی حالت میں بار بار بینکوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور یوں انہیں ذہنی تناؤ کے ساتھ ساتھ جسمانی تکالیف اور معاشی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی تمام تر ذاتی خواہشات اور ترجیحات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ملک و قوم کی خدمت اور ادارے کے وقار کی بحالی کو فوقیت دی، وہ لوگ آج بد ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی دادرسی کرنے والا آج کوئی نہیں ہے۔ ان کی بیوائیں اور یتیم بچے جس طرح کسمپرسی اور بد حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آج ان کے لیے سوموٹو لینے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کی بہتری اور فلاح کے لیے کوئی قانون سازی کرنے والا نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت قانونی مراعات اِن کو تفویض کی گئی ہیں ان پر بھی عمل درآمد کروانے کی کسی میں سکت نہیں ہے۔
ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے اور ماں بے لوث محبت، شفقت، اپنائیت اور قربانی کا دوسرا نام ہوتی ہے۔ میری اس ریاست کے صاحب اختیار لوگوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا یہ ضعیف العمر پنشنرز اس ملک اور قوم کے لیے ایک قیمتی اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس ملک اور قوم کے لیے اپنی خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے ہیں۔ خدارا ان کی قدر کیجئے۔ یہ اپنے حقوق کے حصول کی خاطر کئی سالوں سے ادھر اُدھر مارے مارے پھر رہے ہیں، انہیں ان کے حقوق لوٹائے جائیں۔ وہ بیوائیں اور یتیم بچے جن کو ان کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی جا رہی وہ آج بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کو ان کے رکے ہوئے واجبات کی فوری طور پر ادائیگی کا بندوبست کیا جائے۔
آخر میں میری گورنر سٹیٹ بینک سے التجا ہے کہ آپ کی طرف سے پنشنرز کی سہولیات کی مد میں کمرشل بینکوں کے لئے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں ان پر کمرشل بینکوں کو سختی کے ساتھ عمل درآمد کرنے کا پابند بنایا جائے تا کہ یہ ضعیف العمر پنشنرز، بیوائیں اور یتیم بچے بھی اس معاشرے میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
؎ کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہربان ہو گا عرشِ بریں پر