پچھلے ہفتے ایک خبر تمام برطانوی میڈیا اور بہت سے عالمی اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ لندن میں واقع میکیلا کمیونٹی سکول کی ہیڈ ٹیچر مس کیتھرین بیربل سنگھ نے گذشتہ برس مسلمان طلبہ و طالبات کو احاطہ سکول میں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا اور اس پابندی کے خلاف دسویں جماعت کی ایک مسلم طالبہ نے ہائی کورٹ میں شکایت دائر کی تھی۔ عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ 16 اپریل کو سنایا اور سکول کو پابندی لگانے میں حق بجانب قرار دیا۔
عدالت کا فیصلہ 83 صفحات پر محیط ہے جس میں سکول کی ہیڈ ٹیچر اور درخواست گزار طالبہ کی معروضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ طالبہ، اس کی والدہ اور سکول کے سٹاف کی شناخت کو ان کے تحفظ کے پیش نظر گمنام رکھا گیا ہے۔ فیصلے کا مطالعہ ساری صورت حال پر روشنی ڈالتا ہے۔
میکیلا کمیونٹی سکول کا آغاز 2014 میں ہوا۔ یہ ایک سیکولر فری سکول ہے۔ فری سکولوں کے لئے فنڈ حکومت مہیا کرتی ہے لیکن بہت سے امور میں انہیں مکمل آزادی اور خودمختاری حاصل ہوتی ہے۔ سکول کی بانی کیتھرین بیربل سنگھ ہی اس کی روح رواں بھی ہیں۔ نسلی اعتبار سے وہ بھارتی اور افریقی پس منظر رکھتی ہیں اور تعلیم کے متعلق غیر روایتی اور کسی حد تک انقلابی تصورات کی حامل ہیں۔ سکول کے قیام کے پیچھے ان کا یہ جنون کارفرما تھا کہ اندرون شہر کے پسماندہ بچوں کو اپنی زندگی سدھارنے کا ایک موقع فراہم کیا جائے۔ میکیلا سکول میں لگ بھگ 700 بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی انتہائی غریب گھرانوں سے آتے ہیں جنہیں مفت لنچ دیا جاتا ہے۔ نصف بچے مسلمان ہیں جبکہ 90 فیصد اقلیتی گروہوں یعنی سکھ، ہندو، یہودی، سیاہ فام، مشرقی یورپی وغیرہ پر مشتمل ہیں۔
ڈسپلن کے معاملے میں یہ سکول بہت بے لچک ہے۔ درحقیقت اسے برطانیہ کا سخت ترین سکول کہا جاتا ہے۔ عام سکولوں کے برخلاف یہاں رٹے لگانے پر زور دیا جاتا ہے۔ 7 منزلہ عمارت میں واقع اس سکول میں موجود کمرے تمام تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے بمشکل کافی ہیں۔ کار پارک کو صحن میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں باسکٹ بال اور ٹیبل ٹینس کی سہولیات موجود ہیں۔ طلبہ و طالبات کو ہمہ وقت ٹیچرز کی نگرانی میں رہنا ہوتا ہے۔ ان سے مؤدب اور مہذب برتاؤ کی توقع رکھی جاتی ہے۔ بچوں کے آزادانہ میل جول کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ لنچ میں وقفہ نہیں دیا جاتا بلکہ 'فیملی لنچ' کیا جاتا ہے جس میں اساتذہ موجود ہوتے ہیں۔ آغاز پر ایک ٹیچر کسی مشہور کلاسیکی انگریزی نظم کا پہلا لفظ بولتا ہے جس کے بعد بچے مل کر اس نظم کے بقیہ مصرعے ادا کرتے ہیں۔ لنچ کے دوران استاد حالات حاضرہ، مشہور کتاب یا کسی تاریخی واقعہ پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور پھر تمام طلبہ کو اس موضوع پر لازمی اظہار خیال کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران طلبہ آپس میں گپ شپ نہیں لگا سکتے۔ مس بیربل سنگھ کا ماننا ہے کہ سکولوں میں بُلی انگ اور بچوں کی ہراسانی لنچ اور دیگر فری وقت میں ہوتی ہے چنانچہ ان کے سکول میں بچے محدود اور زیر نگرانی میل جول رکھتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس سخت گیری کا حاصل یہ ہوا کہ میکیلا سکول کو ملکی تعلیمی انسپیکشن رپورٹس میں بہترین یعنی گریڈ ون درجہ مل گیا۔ جی سی ایس ای (میٹرک) میں اس نے تمام سکولوں میں بہترین پوزیشن حاصل کی۔ اس سے اے لیول (انٹرمیڈیٹ) کرنے والے 82 فیصد بچوں کو آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی برطانیہ کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں داخلہ ملا۔ گویا جس خواب پر سکول کی بنیاد رکھی گئی وہ شرمندہ تعبیر ہوا۔ یہ سکول اور مس بیربل سنگھ ہمیشہ سے میڈیا کے لئے دلچسپی کا باعث رہے ہیں لیکن 2023 میں ہوئے واقعات نے اس شہرت میں غیر معمولی اضافہ کیا۔
50 فیصد مسلم طلبہ و طالبات کے باوجود اس سکول میں نماز کی ادائیگی پر کبھی کوئی سوال اٹھا اور نہ تنازعہ کھڑا ہوا۔ پھر 17 مارچ 2023 کو جمعہ کا دن آیا جب کسی ٹیچر نے نویں جماعت کے ایک بچے کو تارکول کے فرش پر اپنا کوٹ بچھا کر نماز ادا کرتے دیکھا۔ 20 مارچ بروز پیر کو 3 بچے اسی طرح نماز پڑھتے نظر آئے۔ اگلے دن 6 اور 22 مارچ کو 20 بچے اجتماعی نماز میں مصروف پائے گئے جنہیں سکول سے باہر گزرتی سڑک سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ اس موقع پر سکول کی ایک سیاہ فام لیڈی ٹیچر نے مداخلت کی۔ کچھ تلخ کلامی ہوئی۔ اگلے ہی روز سکول کے خلاف ایک آن لائن پٹیشن شروع کی گئی جس میں متعلقہ ٹیچر کے رویے کو اسلاموفوبک اور کراہت آمیز قرار دیا گیا۔ 4000 سے زائد افراد نے اس پر دستخط کیے۔ اس ویک اینڈ پر سکول کو موصول ہونے والی ای میلز میں عمارت میں بم نصب کرنے کی اطلاع دی گئی۔
آنے والے ہفتوں میں نامعلوم افراد نے سکول میں شیشے کی بوتلیں پھینکیں۔ ایک ٹیچر کے گھر کی کھڑکی اینٹ سے توڑ دی گئی۔ ایک ٹیچر کے گھر گھسنے کی کوشش کی گئی۔ ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر سکول کے خلاف وڈیوز اپ لوڈ کی گئیں۔ 14 اپریل کو وکلا کی ہدایات پر یہ سلسلہ رکا۔ پٹیشن اور وڈیوز ہٹا دی گئیں۔ دھمکی آمیز اور گالیوں بھرے پیغامات کم ہوتے گئے۔
نمازی بچوں میں سے ایک لڑکی جو ٹیچر سے الجھی تھی، کو کچھ دن سکول سے باہر رکھنے کی سزا دی گئی۔ یہ وہی طالبہ ہے جس نے فرض نماز کی ادائیگی میں مداخلت پر ہائی کورٹ میں اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کا مقدمہ دائر کیا۔
مقدمہ کی کارروائی سے کہیں جانبداری کا تاثر نہیں ملتا۔ فاضل جج نے فریقین کے رویے میں جذباتیت پر تنقید کی۔ ہیڈ ٹیچر نے بتایا کہ نماز پڑھنے کے تنازع کے ساتھ ساتھ مشاہدہ کیا گیا کہ سخت مذہبی طلبہ کم مذہبی مسلم طلبہ پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ حجابی بچیاں غیر حجابی اور روزہ دار طلبہ بے روزہ دار طلبہ کو شرمندہ کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ سکول جو نسلی، مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے ہم آہنگی کا مثالی نمونہ بنا ہوا تھا، میں تقسیم کی سرحدیں اجاگر ہونا شروع ہوئیں۔ سکول کے صحن میں دو ایریا بن گئے۔ ایک مسلم بچوں کا، دوسرا غیر مسلم بچوں کے لئے۔ مس بیربل سنگھ کو لگا کہ ان کی برسوں کی مشقت کو برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
عدالت نے اس واقعہ کے علاوہ مدعی طالبہ کو کسی بدتمیزی یا تعلیمی میدان میں کمتر کارکردگی کا ذمہ دار نہیں پایا۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی دوسرے سکول میں داخلہ نہیں چاہے گی جہاں دینی شعائر کی پاسداری آسانی سے ممکن ہو سکے تو اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میکیلا کے معیار کا سکول آس پاس کہیں موجود نہیں۔
چند حقائق یہ ہیں کہ برطانیہ میں مسلمان کل آبادی کا ساڑھے 6 فیصد ہیں۔ مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا آگ کی طرح پھیلا ہے اور پچھلے چند ماہ میں اس میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ برطانیہ میں میسر سکولوں کی مفت تعلیم معیار کے اعتبار سے دنیا بھر میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر سمجھی جاتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان جیسے ممالک ہیں جن میں بچوں کی بڑی تعداد کو تعلیم نصیب نہیں۔ جبکہ افغانستان میں تو لڑکیوں پر سکول کے دروازے ہی بند ہیں۔
یہ مقدمہ اور اس پر آنے والے فیصلے پر کئی زاویوں سے بحث کی جا رہی ہے۔ ایک طرف برطانوی رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ ہیں جو اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بے قرار ہیں۔ دوسری طرف مسلم انتہا پسند ہیں جو اپنی مرضی کی تشریح پیش کر رہے ہیں۔