ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟

سرمایہ داری نظام نے ماحولیات کو جو زخم دیے ہیں ان کے ردعمل میں یورپ اور امریکہ میں سکولوں اور کالجوں کے طلبہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف متحد ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جا رہا۔

06:08 PM, 29 Apr, 2024

سراج بھاگت

دنیا کو اس وقت جہاں کئی مسائل کا سامنا ہے وہیں ایک بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہے جو اس وقت بہت تیزی سے دنیا پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے اور آنے والے دور میں یہ دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر زمین پر اور زمین پر رہنے والی مخلوقات پر ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی سرگرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے، جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ موسم میں شدت اور قطبی برف کا پگھلنا اس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہیں۔

عالمگیر ماحولیاتی صورت حال سے متعلق ڈبلیو ایم او کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 8 برس تاریخ کے گرم ترین سال تھے جب سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پروفیسر پیٹری ٹالس نے کہا ہے کہ مشرقی افریقہ میں متواتر خشک سالی، پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور چین اور یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس ساری صورت حال میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے صف اول کے ممالک میں سے شامل ہے جس کی تازہ مثال صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری حالیہ بارشیں، سال 2022 میں سندھ اور بلوچسان میں ہونے والے شدید بارشیں اور 2010 کا تباہ کن سیلاب ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تا جا پہنچا۔ اس سال بھی پاکستان میں شدید بارشوں میں محض دو ہفتوں میں 50 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں جس میں ماحولیات کے ساتھ ساتھ پانی کی نکاسی کے جدید سسٹم کا نہ ہونا اور فرسودہ انفراسٹرکچر بھی ذمہ دار ہے۔ یہاں کے حکمران طبقے نے کبھی بھی جدید انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسی طرح کراچی، لاہور سمیت کئی اور شہر انتہائی فضائی آلودگی کی زد میں ہیں جہاں سانس لینا بھی دشوار بن چکا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجوہات

یہ ماحولیاتی تبدیلی اچانک سے وقوع پذیر نہیں ہو رہی بلکہ اس کا اصل ذمہ دار حکمران طبقہ اور موجودہ سرمایہ داری نظام ہے جس میں مشین کا بے تحاشا استعمال، تیل، گیس اور کوئلے کا ٹرانسپورٹ اور صنعتوں میں استعمال اور اس کے نتیجے میں زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی صورت میں گلیشیئر کا پگھلنا اور نتیجے میں سیلابوں اور حد سے زیادہ فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں اور ذاتی مقاصد کے لیے جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی جاری ہے اور جنگلات کے کٹاؤ سے فضا میں آکسیجن بتدریج کم ہو رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جنگلات کا کل رقبہ 4 فیصد رہ گیا ہے جبکہ صحت مند ماحول کے لیے کم سے کم 20 فیصد جنگلات کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا ہے اور ساری فضا زہریلی بن گئی ہے۔ سمندروں اور دریاؤں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا ہے۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کے حفاظتی غلاف اوزون کی تہہ کو کافی حد تک نقصان دیا ہے جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگی ہیں۔

سرمایہ داری نظام کے باعث جو ماحولیات کو زخم دیے گئے ہیں اس نے پورے یورپ میں ایک تحریک کو جنم دیا ہے۔ اس وقت یورپ سے لے کر امریکہ میں سکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف متحد ہو چکے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا اور ترقی کے نام پر زرخیز زمینوں، پہاڑوں اور چراگاہوں کو بلڈرز مافیا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دریائوں کی قدرتی گزرگاہوں پہ بند باندھ کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں جس سے زراعت اور آبی حیات تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے شہر کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے نام پر کیرتھر نیشنل پارک کی کٹائی کر کے زرعی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس سے انسان، جنگلی حیات سمیت ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تھر پارکر میں پاک انڈیا بارڈر سے منسلک کارونجھر پہاڑ جس کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں کہ اس فطرتی حسن کے شاہکار اور جنگلی جیوت کی آماجگاہ کو بھی ترقی کے نام پر نیلام کیا جائے۔

اقوام متحدہ سے منسلک سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بد ترین نتائج کو روکنے کا وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور اس تناظر میں ہمیں جلد از جلد ممکنہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

ماحولیاتی مسائل اور ان کے ممکنہ حل

صنعتی سرگرمیوں کے لیے تیل، گیس اور کوئلے کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کے باعث کاربن گیسوں کی مقدار، جو دو سو سال قبل 280 پی پی ایم (پارٹس پَر ملین) تھی، اب بڑھ کر 400 پی پی ایم ہو چکی ہے۔ اب معدنی ایندھن کی جگہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کا استعمال کرنا چاہیے پھر سے جنگلات اُگانے، زراعت کے عمل میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور صنعتی سرگرمیوں میں تبدیلی لازم کرنی چاہیے۔

زراعت کے لیے زمین کے حصول یا مویشی رکھنے کے لیے جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ آج کل زمین کا 30 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے، جن کا ایک اہم کام کاربن گیسیں جذب کرنا بھی ہے لیکن ہر سال 18 ملین ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

موجود قدرتی جنگلات کا تحفظ یقنی بنانا چاہیے اور ہر خطے کے مقامی درختوں پر مشتمل جنگلات کی کاشت کرنی چاہیے۔

زمین ہو یا سمندر، انسان مختلف طرح کے جانوروں اور قسم قسم کی مچھلیوں کا اس حد تک زیادہ شکار کر رہا ہے کہ کئی انواع کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس کے لیے بائیو ڈائیورسٹی کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔ غیر قانونی شکار اور جنگلی حیات کی تجارت پر پابندی لگائی جائے۔ مقامی آبادیوں کو شامل کیا جانا چاہیے، جیسے اُنہیں جنگلی حیات کے تحفظ کے سماجی اور اقتصادی فوائد بھی ملیں۔

20 ویں صدی کے آغاز پر انسانی آبادی 1.6 ارب تھی، آج کل 7.5 ارب ہے۔ 2050 تک یہ 10 ارب تک پہنچ جائے گی۔ اس وجہ سے انسانی وسائل پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جس کے لیے خواتین کی تعلیم اور بہتر سہولتوں تک رسائی ممکن بنانی چاہیے تاکہ وہ افزائش نسل کے بارے میں خود بھی فیصلے کر سکیں اور خاندانی منصوبہ بندی لازم قرار دے کر بڑھتی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں