اسی دوران ہم پرائمری کی تعلیم مکمل کر کے شہر کے دو بڑے سرکاری اسکولوں میں سے ایک میں چھٹی کلاس میں داخل ہوگئے۔ محلے کے تمام ہم عمر طلبا گھروں سے پیدل اسکول جاتے تھے گو کہ اسکول ہمارے گھر سے تقریباً 3 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا اور لاڑکانہ میں گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ جاتا تھا۔ موسم سرما میں بھی سخت سردی ہوتی تھی صبح شہر میں دھند اور کہر لپٹا ہوتا تھا۔ بارشیں بھی کافی ہوتی تھیں لیکن نہ کبھی اسکول سے ناغہ کیا اور نہ ہی گھر والوں نے اسکول جانے سے روکا۔
کیا سنہرا دور تھا روزانہ صبح ریڈیو سیلوں سے بجتے گانوں پر آنکھ کھلتی، پروگرام کا اختتام کے ایل سہیگل (کندن لال سہیگل) کے گانے پر ہوتا۔ صبح سویرے زندگی کا کاروان اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ روان دوان ہو جاتا۔ اس زمانے میں مٹی کے چولہے ہوتے تھے اور لکڑیوں کی آگ پر کھانا تیار ہوتا تھا۔ آگ کے شعلے تیز کرنے کے لیے چولہے میں اپلے ڈالے جاتے، اس پر تازہ گرم روٹی پر اصلی گھی یا مکھن ڈال کر دہی سے ناشتہ کر کے اسکول روانہ ہوجاتے تھے۔
گرمیوں کی دوپہر میں 2 بجے چلچلاتی دھوپ میں اسکول سے پیدل واپس آتے، اسکول آنے جانے میں کوئی کوفت محسوس نہ ہوتی۔ ہاں البتہ دوپہر کو اسکول سے نکلتے تو پیاس بجھانے کے لیے ایک ٹھیلے پر رُکتے۔ ٹھیلے والے کے پاس لیموں پانی کا ایک بڑا سا مٹکا تھا، جس پر سرخ رنگ کا کپڑا چڑھا ہوتا۔ ٹھیلے والا لیموں پانی کا گلاس اس وقت غالباً ایک آنے کا دیتا تھا، لیموں پانی پی کر ہم ہنسی خوشی گھر کی جانب روانہ ہو جاتے۔
اسکول میں ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ کی عملداری ہوتی تھی اور ان ہی کے حکم کے ہم تابع تھے۔ اسکول دیر سے پہنچنے پر ہیڈ ماسٹر ہاتھوں پر پانچ بید رسید کرتے، اسی طرح کلاسوں میں بھی ماسٹروں کا یہ ہی پسندیدہ شغل تھا املا کی غلطی پر سزا، ہوم ورک نہ کرنے پر سزا، کلاس میں چھوٹی موٹی شرارت پر سزا، عرض سارا دن اسی طرح نکل جاتا تھا۔ کوئی مجال ہے کسی ماسٹر صاحب کے بارے میں حرف شکایت اپنے منہ پر لے آئے۔ اگر غلطی سے کبھی گھر میں شکایت کردی تو اسی کی گوشمالی کی جاتی کہ تم نے ہی کوئی غلطی کی ہوگی کیا ماسٹر صاحب کا دماغ خراب ہوا تھا کہ تمہں سزا دیتے، چلو دفع ہو جاؤ اور اب کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ چلیے حساب برابر، یہ تھے والدین کے تربیت کے اصول۔
اُس زمانہ کے اساتذہ بھی کمال چیز تھے، پڑھائی لکھائی کے علاوہ ہر استاد کسی نہ کسی فن میں ماہر، کوئی تقریر نویس اور کوئی مضمون نویسی، ڈرامہ، اسکاؤٹنگ میں تو کچھ ہاکی، بیدمنٹن اور ٹینس وغیرہ پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ روزانہ شام کو اسکول گراؤنڈ میں ٹیموں کو پریکٹس کراتے تھے۔
ہفتہ طلبا ہر سال نہایت ہی جوش و خروش اور اہتمام سے منعقد کیا جاتا تھا اور تمام شہرکے لوگ طلبا کی ان تقریبات کو دیکھنے موجود ہوتے تھے۔ ہر سال سالانہ مجلہ بھی شائع ہوتا تھا۔ جو طلبا اور اساتذہ کے مضامین اور تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ اسکاؤٹنگ، گرلز گائیڈز اور تقاریری مقابلے طلبا کی شخصیت کی آبیاری کا اہم حصہّ ہوتا تھا۔
پرانے پاکستان کی کسِ کسِ شے کا اظہار کروں کیا وقت تھے اس زمانے کی تفریح اور کھیلوں میں ایک سادگی اور شخصیت کی تربیت کا خیال رکھا جاتا تھا۔
لڑکیوں کی مقبول تفریحات اور مشاغل میں گڈے گڑیا کی شادی اور ہنڈکلیا شامل تھے، گڈے گڑیا کی شادی بڑے اہتمام سے ہوتی تھی۔ پہلے باقاعدہ گڑیا کا رشتہ مانگنے والی ٹیم گڈے کے گھر جاتی اور جب رشتہ طے ہو جاتا تو مہندی اور نکاح کی تقاریب ہوتیں۔ مجھے نکاح کا جملہ آج بھی اچھی طرح یاد ہے بول میرے گڈے تجھے گڑیا کا رشتہ قبول، عہد و وفا کے بعد کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ بعدازاں گڈے اور گڑیا کو پورے محلہ کا دورہ کرایا جاتا۔ کیا معصوم دن تھے ہمارے پاکستان میں۔ اب ان کی جگہ Play Date جیسی چیزیں شروع ہوگئی ہیں۔
ہنڈکلیا لڑکیوں کی باقاعدہ کھانا پکانے کی تربیت کا حصہّ تھا۔ لڑکیاں چھوٹے چھوٹے برتنوں میں کھانا بناتیں اور چھوٹی چھوٹی رکابیوں میں کھانا تقسم کیا جاتا۔ لڑکیوں کی ان تقریبات میں سوائے ہنگامہ اور گڑبڑ مچانے کے لڑکوں کا کوئی اور کردار نہیں ہوتا تھا۔ اگر کوئی لڑکا کسی نانی دادی کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کی زبردست درگت بنتی۔
میرے خیال میں ہماری نسل کے لوگوں میں مذہبی رواداری، برداشت اور نرم روی کی غالباً ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری تربیت میں خواتین کا زیادہ عمل دخل ہے۔ لہذا ہماری شخصیتوں پر اس کی گہری چھاپ ہے۔ گھر کی چار دیواری میں ہم نے حکمرانی صرف خواتین کی دیکھی ہے۔ ہر سال خواتین کی زیر نگرانی "مینا بازار" لگتا تھا جو کہ تین دن جاری رہتا۔ تمام تر انتظامی ذمہ داریاں خواتین انجام دیتی تھیں۔
امن و عامہ اور نظم و ضبط کا معاشرے میں خیال رکھا جاتا تھا۔ آج کل کی طرح سیکیورٹی گارڈ، سی سی ٹی وی کیمرے یا راشی پولیس اور انتظامیہ افسران موجود نہیں تھے۔ میں قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہم نے اس زمانے میں اغوا، اغوا برائے تاوان، گلی کوچوں اور نہتے لوگوں کو لوٹ مار کر کے ان کی قیمتی اشیا سے محرومی کا کوئی واقعہ نہیں سنا تھا۔
حالات اس حد تک پُرسکون تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب جب پاکستان کے وزیرِ خارجہ تھے تو ہم نے اپنے اسکول اور کالج آتے جاتے کبھی وہاں پر کوئی پولیس تعینات نہیں دیکھی۔ بھٹو صاحب جب لاڑکانہ تشریف لاتے تو وہ بسا اوقات اپنی سفید جیپ جس پر امریکہ پاکستان کا نشان آویزاں تھا اور اس کا نمبر LA128 تھا، بنفس نفیس خود جیب چلاتے ہوئے گورنمنٹ کالج لاڑکانہ پہنچ جاتے اور انتظامی بلاک کے باہر موجود طلبا سے گھل مل جاتے۔ اس دوران کالج پرنسپل اپنے آفس میں ہی موجود رہتے۔
کتنا تضاد ہے آج کے پاکستان میں اور پرانے پاکستان میں کہ اس وقت کے وزیر خارجہ بغیر کسی شان و شوکت اور لاؤلشکر کے بلا خوف و خطر کہیں بھی چلے جاتے تھے۔
کئی اور واقعات کا ذکر میں نے مضمون کی طوالت کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے لیکن لاڑکانہ شہر کے ماحول سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کی باقی پاکستان کیسا تھا۔ مجھے تو اپنا پرانا پاکستان واپس چاہیے اور جنہیں نیا پاکستان چاہیے وہ انہیں مبارک ہو۔