ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ کے ٹی این کی ایک خاتون اینکر نے سائبر کرائم ونگ کو شکایت درج کروائی تھی کہ سندھ ٹی وی کے اینکر ارشاد جاگیرانی سوشل میڈیا کے ذریعے مبینہ طور پر انہیں ہراساں اور بلیک میل کر رہے ہیں۔
اس درخواست پر سائبر کرائم ونگ کی جانب سے چینل کے ہیڈآفس پر چھاپہ مار کر اینکر ارشاد جاگیرانی کو حراست میں لے لیا، جس پر صحافی برادری کی جانب سے تنقید کی گئی۔
خاتون اینکر نے اپنی درخواست میں فیس بک اکاؤنٹ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ملزم مختلف تقریبات کے موقع پر لی گئی 'سیلفیز' کو بنیاد بنا کر مختلف سوشل میڈیا آئی ڈیز کے ذریعے ہراساں اور بلیک میل کر رہا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ حکام نے ملزم کے موبائل فون سے 'ثبوت' حاصل کرلیے جبکہ دوران حراست اینکر نے ان خاتون اینکر کو ہراساں کرنے کا 'اعتراف' کرلیا جو کسی دوسری چینل کو جوائن کرنے سے قبل اسی چینل میں ان کے ساتھ کام کرتی تھی۔
ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ تحریری معافی جمع کروانے کے باوجود قانونی کارروائی پوری کی جائے گی، تاہم بعد ازاں اینکر کو رہا کردیا گیا۔
دوسری جانب ایک ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اب تک معاملے کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی، خاتون کی درخواست پر تحقیقات شروع کی گئی ہے اور مشتبہ شخص کے موبائل فون سے حاصل ثبوت کے فارنزک کے مکمل ہونے تک یہ عمل جاری رہے گا۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں کہ خاتون نے ملزم کو 'تحریری معافی' کے بعد 'معاف' کردیا لیکن اگر وہ چاہیں تو وہ انہیں معاف کرسکتی ہیں۔
تحقیقاتی ایجنسی کے عہدیدار نے بتایا کہ جرم 'ناقابل دست اندازی' تھا، لہٰذا حراست میں لیے گئے اینکر کو رہا کردیا گیا۔
ادھر سندھ ٹی وی کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز فیاض نائچ نے ڈان کو بتایا کہ وہ اپنے ہیڈ آفس پر ایف آئی اے کے 'چھاپے' کو ' میڈیا ہاؤس کی حرمت پامال' کرنا سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایف آئی اے چینل سے کہتی تو وہ تفتیشی مقصد کے لیے اینکر کو ان کے حوالے کردیتے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ شکایت کنندہ اینکر کے ساتھ ہیں لیکن ایف آئی اے کے چھاپے کو ملک میں 'میڈیا پر حملوں کے تسلسل' کے طور پر دیکھتے ہیں۔