میں ایسے کئی واقعات کا چشم دید گواہ ہوں کہ فلاں شوہر نے اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بنایا، سوشل میڈیا پر بھی ایسے واقعات کی بھرمار ہوتی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا، ابھی مجھے کل ہی ایک ایسے نئے واقعہ کا پتا چلا تو میں چکرا کر رہ گیا۔
میری ذاتی رائے میں جو لوگ اپنی بیویوں پر تشدد کرتے ہیں وہ زیادہ تر احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اپنے برے دن، آفس کا غصہ، باس سے پڑی ڈانٹ کا سارا زور اپنی بیوی پر نکالتے ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ گھروں میں ساسیں اپنی بہوؤں کے خلاف اپنے بیٹوں کے کان بھرتی ہیں، انہیں انکے خلاف کرتی ہیں (بےشک آپکو برا لگے لیکن ایسا ہوتا ہے)، یہاں سے تشدد کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
ماضی قریب کا ایک ہی واقعہ ہے، میں فیصل آباد کے ایک مشہور سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت کو دو عورتیں پکڑ کر لا رہی ہیں، اس عورت سے چلا بھی بڑی مشکل سے جا رہا تھا، پوچھنے پر پتا چلا کہ کہ شوہر اکثر تشدد کا نشانہ بناتا ہے، آج بھی بہت مارا ہے، میں نے جلدی دوائی لکھ کر دی، نرس کو کہا کہ اسے جلدی انجکشن لگائیں، اور ساتھ ہی اسے پولیس کاؤنٹر کی راہ دکھائی ۔ اسکے ساتھ آئی عورت بولی"ہم آج یہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ بہت ہو گیا، اب ہم نے پولیس کو رپورٹ درج کروانی ہی ہے، میں نے انکے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی۔
ایک دو دفعہ ایسی متاثرہ عورتوں سے میں نے پوچھا کہ آپ کیوں مار سہتی رہتی ہیں؟؟ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں چلی جاتیں، آگے سے بولیں کہ "ڈاکٹر صاحب! گھر والے کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے رشتے میں اونچ نیچ ہو ہی جاتی ہے، برداشت کرنا عورت کی ذمہ داری ہے، تو ہم کس طرح انکے پاس رہ لیں"؟؟ یہی وہ سوچ ہے جو اس عمل کو بڑھاوا دے رہی ہیں ۔
ایک غلط بات جو ہمارے درمیان رچ بس گئی ہے کہ کمپرومائز کرنا عورت کی ہی زمہ داری ہے۔ اگر میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں، تو اگر ایک پہیہ خراب ہے تو بجائے اس خراب پہیے کو ٹھیک کرنے کے، ہم صیح پہیے کو ہی کیوں خراب کرنے پر تلے ہیں؟؟ کمپرومائز ہمیشہ عورت ہی کیوں کرے؟؟ ایک تو اس پر ظلم ہو رہا، اور ساتھ ہی ہم اسے "کمپرومائز " اور "گھر بچانے " کے نام پر یہ ظلم برداشت کرنے کا درس بھی دے ہیں ۔ کیا ہم اپنے مردوں کو کمپرومائز کا نہیں کہہ سکتے ۔
ہر حکومت یہی لالی پاپ دیتی ہے کہ خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں، نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد کروانا کسکی ذمہ داری ہے؟؟ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا کے اس دور میں بھی ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور کسی کے کان پر جون تک نہیں رینگ رہیں۔ اگر اس ظلم کے خلاف انسانی حقوق کی تنظمیں اور سول سوسائٹی احتجاج کرے تو ہم ان پر "لبرل" اور امریکی فنڈنگ کا الزام لگا دیتے ہیں، اور یہ کہتے کہ یہ لوگ ہمارے گھریلو نظام کو تباہ کر رہے ہیں، کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ ہمارا گھریلو نظام تو تباہ و برباد ہو چکا ہے، اب بس دفنانا باقی ہے ۔
گھریلو تشدد میں صرف جسمانی تشدد کا نام نہیں، اس میں زہنی تشدد بھی شامل ہے۔ اپنی بیوی کو گالیاں دینا، اسکو اپنی نوکرانی سمجھنا، اس پر اپنی مردانگی دکھانا بھی گھریلو تشدد میں ہی شامل ہے، اگر زہنی تشدد کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔ لیکن اس اندھیر نگری میں جسمانی تشدد کے مجرموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، زہنی تشدد کو کون پوچھے گا؟؟
اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے ارباب اختیارات اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے، گھریلو تشدد مقدمات کے لیے علیحدہ کورٹس تشکیل دی جانی چاہیے تاکہ ایسے مقدمات کا جلدی فیصلہ ہو اور ملزموں کو فوری سزا دی جائے تو تبھی اس طرح کے واقعات میں کمی آ سکتی ہے۔ ساتھ ہی متاثرہ خواتین کے لیے رییلیٹیشن سینٹر کھولے جائیں جہاں ان کی کونسلنگ کی جائے اور کارآمد شہری بنایا جائے ۔ ایسی خواتین کو ہنر بھی سکھائیں جائیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو سکیں ۔
آخر میں والدین سے گزارش ہے کہ اپنی بیٹیوں کو ایسے وحشی درندوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے ہرگز نا کہیں، انہیں "رشتے بچانے کے نام پر " تشدد سہنے کی ترغیب مت دیں۔ آپ کی زندہ بیٹی، تشدد سے مری بیٹی سے بہتر ہے۔ انہیں کہ بتائیے کہ ہم نے ایک انسان کیساتھ تمہاری شادی کی تھی، اگر وہ جانور نکل آئے تو اس کے ساتھ رہنے کی غلطی مت کرنا، واپس اپنے گھر لوٹ آنا، تمہارے والدین کے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلیں ہیں ۔ اپنی بیٹیوں کو صیح معنی میں تحفظ دیجیے، کل کو یہی آپکا سہارا بنیں گی