یاد رہے کہ شہباز گل نے گزشتہ ہفتے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ‘اے آر وائی’ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں شہباز گل کی درخواست ضمانت پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کی۔
دوران سماعت انسپکٹر ارشد ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔
جج نے استفسار کیا کہ ملزم کی جانب سے کون پیش ہوا ہے اور مدعی کی جانب سے کون ہے جس پر پولیس نے جواب دیا کہ ملزم شہباز گل کے وکیل برہان معظم موجود ہیں جبکہ پراسیکیوٹر آرہے ہیں۔
وکیل برہان معظم نے استدعا کی کیا ہم ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں ہمارے خلاف کیا شہادت ہے جس پر عدالت نے پولیس کو ملزم کے خلاف ریکارڈ وکیل کو دکھانے کا حکم دیا۔
پولیس نے استدعا کی آپ وکلا کو ہدایت دیں ایک یا دو وکلا ریکارڈ دیکھ لیں، یہ تصاویر نہ بنائیں۔
پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ ہم ضمنی نہیں دکھا سکتے، باقی ریکارڈ دکھا دیتے ہیں جس پر جج نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ضمنی نہ دکھائیں ان کو باقی ریکارڈ دکھا دیں۔
شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے 161 کا بیان نہیں دکھایا، 12 گواہان لکھے ہوئے ہیں، آپ سے استدعا ہے کہ 161 کے بیان دکھانے کا حکم جاری کریں جس پر جج نے کہا کہ تفتیشی کدھر ہے، اس کو بلائیں، آپ وکلا کو 161 کا بیان دکھائیں، کس نے کیا بیان دیا ہے۔
ملزم شہباز گل کا بیان نہ دکھانے پر وکلا نے اعتراض کیا، وکلا نے کہا کہ پولیس ملزم کا بیان نہیں دکھا رہی، باقی سارے بیانات دکھا دیے ہیں جس پر عدالت نے پولیس کو ملزم کا پہلا بیان دکھانے کا حکم دیا۔
وکیل نے کہا کہ 8 اگست کو علام مرتضی چانڈیو کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوتا ہے، اس دوران ملزم شہباز گل کے وکیل برہان معظم نے مقدمے کا متن پڑھنا شروع کردیا، فورسز کے افسران پر تقسیم کرنے کا الزام لگایا گیا، مدعی سٹی مجسٹریٹ نے شہباز گل پر بغاوت کا الزام لگایا ہے، مقدمے کے بعد بیان میں مزید 5 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ شہباز گل نے بغاوت کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں، ٹرانسکرپٹ کے مختلف جگہوں سے پوائنٹ اٹھا کر مقدمہ درج کیا گیا، الزام ایسے ادارے پر لگائے جارہے ہیں جو رات کو سڑکوں پر جاتے ہیں، اس سارے بیان پر کسی جگہ پر غلطی فہمی پیدا ہوئی ہے، شہباز گل اس غلط فہمی کو دور کرنے پر تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہباز گل معافی مانگنے پر بھی تیار ہیں لیکن یہ حق کس طرح ملا مختلف پوائنٹ اٹھا کر بغاوت کا الزام لگا دیا گیا، کمرہ عدالت میں شہباز گل کے بیان اور اینکر کے سوال سے متعلق ویڈیو چلائی گئی، شہباز گل اتنا پاگل تو نہیں وہ ملک کے خلاف بات کرے گا، شہباز گل نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ بریگیڈیئر رینک سے نیچے والے اپنے جنرلز کی بات نہ مانیں۔
برہان معظم ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ پاگل نہیں ہیں، ایسی بات کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، شہباز گل کی گفتگو میں نواز شریف اور مریم نواز مخاطب تھے، ان کے اسٹریٹجک میڈیا سیل کو کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے۔
دوران سماعت وکیل نے 15 منٹ کے وقفے کی استدعا کردی۔
شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، علی نواز اعوان، سیف اللہ نیازی ، صداقت عباسی بھی عدالت پہنچ گئے۔
دوران سماعت کمرہ عدالت میں بے پناہ رش کے باعث عدالت نے غیر متعلقہ افراد کو باہر نکالنے کا حکم دیا جس پر عدالتی اہلکار نے کہا کہ جب تک ضمانت کی آواز نہیں پڑ جاتی غیر متعلقہ افراد باہر چلے جائیں، عدالتی اہلکار کے حکم پر علی نواز اعوان، سیف اللہ نیازی، صداقت عباسی و دیگر کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔
شہباز گِل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے(بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے ڈاکٹر شہباز گِل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔
16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے اسی دن سننے کا حکم دیا تھا۔
17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
شہباز گل کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کرنے کے انتظامات کیے گئے تھے حالانکہ جیل حکام کو یقین تھا کہ ان کے پاس شہباز گل کے علاج کی سہولیات موجود ہیں۔
راولپنڈی پولیس کے ساتھ اس معاملے پر 2 گھنٹے طویل تعطل کے بعد اسلام آباد پولیس فورس بالآخر شہباز گل کو اپنی تحویل میں لینے میں کامیاب ہوگئی تھی اور انہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا، بعد ازں پمز ہسپتال نے ان کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے ایک 5 رکنی بورڈ بھی تشکیل دے دیا تھا۔
19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا اور دوبارہ میڈیکل کرا کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
22 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں رہنما پاکستان تحریک انصاف کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔
خیال رہے کہ 9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔
اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔
شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔
پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔