بظاہر نواب اکبر خان بگٹی اور اسلام آباد کی مقتدرہ کے مابین سیاسی کشمکش اور تصادم کا آغاز سوئی گیس پلانٹ میں تعینات خاتون ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے نتیجے میں سامنے آیا جس پر نواب بگٹی نے بلوچی روایات کے تحت شدید ردعمل دیتے ہوئے ایک فوجی افسر کا نام لے کر اسے خاتون ڈاکٹر کی بے حرمتی کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر دیا لیکن اس تصادم کی بنیاد اس وقت پڑی جب 2000 میں بلوچستان ہائیکورٹ کے سینیئر جج جسٹس نواز مری کو دن دیہاڑے کوئٹہ کے ریڈزون میں قتل کر کے اس کا الزام نواب مری اور ان کے بیٹوں پر عائد کر کے نواب مری کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ وہ اس قتل کے الزام میں کئی سال تک ہدہ جیل کوئٹہ میں پابند سلاسل رہے۔ جبکہ اس واقعہ کی آڑ میں مقتدرہ نے جندران میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنے تصرف میں لانے کے لیے نواب مری کے سامنے اپنی شرائط پیش کر دیں لیکن جب نواب مری نے ان شرائط کو ماننے سے انکار کر دیا تو بلوچستان کے محاصرے کو مزید مضبوط بنانے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ قلات کے مقام پر بے گناہ بلوچوں کو قتل کر کے انہیں را کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جبکہ 2002 میں گوادر، سوئی اور کوہلو میں تین نئی فوجی چھاؤنیوں کے قیام سمیت گوادر میں میگا پروجیکٹس کے منصوبوں کے زوردار اعلانات کیے گئے جن کا بنیادی مقصد مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا اور چھاؤنیوں کے ذریعے بلوچوں پر اپنے قبضے کو مزید مستحکم بنانا تھا۔
اربوں ڈالر کے ان بڑے میگا منصوبوں پر بلوچ عوام کو اعتماد میں لیا گیا، نا ان کے خدشات اور تحفظات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس وقت کی حکومت نے بزور طاقت ان تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا واضح اور برملا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف گودار کے لیے جو ماسٹر پلان بنایا گیا اس نے مقامی آبادی سمیت پوری بلوچ قوم کو مزید گہری تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ان تمام واقعات نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا اور یہیں سے بلوچ قومی تشخص اور بلوچ ساحل و وسائل کو اسلام آباد کی دستبرد سے بچانے کی نئی عوامی تحریک نے جنم لیا۔
نواب بگٹی کی قیادت میں چار جماعتی بلوچ اتحاد (جمہوری وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچ حق توار) نے ان نوآبادیاتی منصوبوں کے خلاف شہری سیاست کو منظم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ نواب بگٹی نے ڈیرہ بگٹی میں ہی بیٹھ کر اس تحریک کی قیادت اور ترجمانی کے فرائض سرانجام دیے۔ انہوں نے ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں بلوچ مقدمے کی بھرپور وکالت کی۔ جس کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں اس وقت کی مقتدرہ نے نواب بگٹی کے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا جہاں 26 اگست 2006 میں ایک بہت بڑے ملٹری آپریشن کے ذریعے انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت گلزمین کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔
واضح رہے اس سے قبل مارچ 2005 میں بھی ڈیرہ بگٹی میں نواب بگٹی کے قلعہ اور رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 60 سے زائد بے گناہ بلوچ مارے گئے اور 100 سے اوپر زخمی ہو گئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر ہندو برادری کے لوگ شامل تھے جبکہ نواب بگٹی بال بال بچ گئے۔
جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں اس وقت کی مقتدرہ میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ بلوچستان میں قومی حقوق، ساحل و وسائل کی نئی ابھرتی ہوئی عوامی تحریک کی اصل وجہ اور روح رواں نواب بگٹی ہی ہیں لہٰذا اسے مار کر ہی بلوچستان میں ان نوآبادیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، لیکن مقتدرہ کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ آج نواب بگٹی کی شہادت کو 18 سال بیت گئے ہیں لیکن بلوچستان میں امن کا قیام ممکن ہو سکا ہے اور نا ہی یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں بلکہ بلوچستان آج ماضی کی نسبت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔
بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نے ایک انتہائی سنگین بحران کی شکل اختیار کی ہے۔ سیاسی و معاشی حقوق کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ ہر معاملہ ڈنڈے کے زور پر چلایا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ریاست سے انتہائی مایوس ہیں۔ ہر طرف احساس محرومی، غربت، نفرت، مایوسی، استحصال، ریاستی جبر اور نوآبادیاتی حکمرانوں کی بالادستی اور پالیسیوں کا راج ہے۔
نواب بگٹی کے بے رحمانہ قتل کے واقعہ نے بلوچستان میں موجودہ مزاحتمی تحریک جو پس منظر میں موجود تھی، کو بھرپور ابھرنے کا موقع دے دیا۔ یہ تحریک کوہلو اور ڈیرہ بگٹی سے نکل کر آواران اور مکران تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ یوں نواب بگٹی کی شہادت نے بلوچستان کی سیاست پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کیے۔ بلوچ قومی تشخص اور بلوچ ننگ و ناموس کے لیے جان کے نذرانے دینے والے نواب بگٹی نے بلوچوں کو قربانی اور عملی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا؛ 'میرے اور مری کے مرنے کے بعد یہ تحریک یہیں ختم نہیں ہو گی، نوجوان ضرور ہمارے سیاسی ورثہ کی حفاظت کریں گے'۔ آج بلوچ نوجوانوں نے اس سیاسی ورثہ کو جس انداز سے گلے لگایا ہے اس کی نظیر اس خطے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مزید براں بلوچ خواتین اور بچیوں نے تو بلوچ قومی تحریک کے ترقی پسندانہ نقطہ نظر اور انقلابی پن میں ایک نئی جدّت اور کشش پیدا کر دی ہے۔ ان کی جرات اور بہادری نے اس تحریک کو مزید توانائی فراہم کی ہے۔
چونکہ نواب بگٹی کی شہادت سے بلوچ جدوجہد کو ایک نیا عزم ملا اور اس نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا اس لیے نواب بگٹی کی شہادت پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے انسانی حقوق کی ممتاز رہنما عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا؛ 'بلوچ دماغی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔ اب انہیں زبردستی پاکستان میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آخر زبردستی انہیں کب تک پاکستان میں رکھا جا سکے گا اور کب تک اس طرح مسئلے کو چلایا جائے گا'۔ دراصل نواب بگٹی کی قربانی اور عملی جدوجہد کے فلسفے سے بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا اور انہوں نے اپنی شہادت سے بلوچوں کو واضح پیغام دیا کہ وہ اسلام آباد کی غلامی کسی بھی صورت قبول نہ کریں۔ لفاظی اور بیان بازی کے بجائے عملی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ انہوں نے بلوچ فلسفہ مرگ پر من و عن عمل کرتے ہوئے اپنے لیے ایک باوقار موت کا راستہ چن لیا۔ اس لیے ان کی شہادت پر ممتاز بلوچ بزرگ رہنما سردار عطاء اللہ مینگل نے کہا تھا؛ 'ہمیں نواب بگٹی کی شہادت پر رشک آ رہا ہے۔ اس عمر میں اگر ایسی موت مل جائے تو اور کیا چاہیے۔ نواب اکبر خان خوش نصیب ہیں کہ جنہوں نے اس عمر میں بلوچوں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے اپنے سر کا نذرانہ دیا ہے'۔
نواب بگٹی کی شہادت نے بلوچستان کا سیاسی اور سماجی منظرنامہ یکسر تبدیل کر دیا۔ نوجوان نواب بگٹی کے فلسفہ کی طرف راغب ہوئے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ نواب بگٹی کی قربانی محض داخلی خودمختاری یا چند پارلیمانی نشستوں کے لیے نہیں تھی۔ وہ اسے ایک بہت بڑے اور اعلیٰ سماجی آئیڈیل سے منسلک کرتے ہیں۔ مابعد نواب بگٹی بلوچستان میں چار ریاستی انتخابات منعقد ہوئے ہیں لیکن بلوچ عوام اور خصوصاً بلوچوں کے نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے نے اسے مکمل مسترد کر دیا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان میں انتخابات کے دن کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ یوں بلوچ ان جعلی انتخابات اور اسمبلیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوری اور اعتماد کا ناصرف فقدان ہے بلکہ ایک بہت بڑے بحران نے جنم لیا ہے۔ اس لیے مقتدرہ نے نواب بگٹی کے سیاسی وارثوں کے مقابلے کے لیے روایتی قبائلی سرداروں کے بجائے اب ایک نئی جعلی اور ڈمی قیادت سرفرازبگٹی، صادق سنجرانی، قدوس بزنجو، ظہوربلیدی، انورالحق کاکڑ و دیگر کی شکل میں میدان میں اتاری ہے جو اپنے اشتعال انگیز بیانات، تقاریر اور ٹوئٹس کے ذریعے اسلام آباد سے اپنی وفاداری کے سرٹیفکیٹ کو مستند بنانے کی کوشش میں گماشتے اور بروکر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی لوگ اس جنگ کے سب سے بڑے بینیفشریز ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ مارکٹائی کا یہ سلسلہ جاری رہے تاکہ اسلام آباد کی منڈی میں ان کی مانگ برقرار رہے۔
دوسری جانب نواب بگٹی کی دو سابقہ اتحادی جماعتیں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی درمیان میں سینڈویچ بنی ہوئی ہیں۔ ایک طرف وہ بلوچ نوجوانوں کے غیض و غضب کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف اسلام آباد کی مقتدرہ کے لیے بھی یہ قابل قبول اور قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ کبھی قدوس بزنجو کا ماتھا چومتے ہیں اور کبھی سرفراز بگٹی کو خوش کرنے کے لیے محفل موسیقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس طرز عمل سے بلوچ سیاست اور سماج میں ان کے لیے سیاسی زمین اور سپیس دن بدن کم پڑتی جا رہی ہے۔ حالانکہ نواب بگٹی نے بھی انہی کی طرح پارلیمانی اور جمہوری سیاست کی تھی لیکن انہوں نے پی ایس ڈی پی کے لیے کبھی بھی کسی کا ماتھا نہیں چوما تھا، نا ہی کسی سے پارلیمانی نشستوں اور اقتدار کی بھیک مانگی تھی۔
بہرحال اس وقت ان کی یہ دونوں سابقہ اتحادی جماعتیں ایک کڑی آزمائش سے دوچار ہیں۔ ان کی مصلحت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے شہری و احتجاجی سیاست کی زمین بھی ان کے پاؤں کے نیچے سے کھسک گئی ہے۔ ان کا کام اب صرف فوتگی پہ جانا، اظہار تعزیت کرنا، کسی واقعہ کی مذمت کرنا اور ہاتھ باندھ کر یتیموں کی طرح اپیل کرنا رہ گیا ہے جبکہ بلوچ نفسیات اور سماجی و قومی ضروریات اس طرز سیاست کو قبولیت نہیں بخش رہی ہیں۔ اس لیے یہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور عوام بہت آگے نکل چکے ہیں۔ حالانکہ پارٹیاں اور قیادت عوام کو لیڈ کرتی ہیں، انہیں رہنمائی فراہم کرتی ہیں لیکن بلوچستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ یہاں عوام انہیں راستہ دکھا رہی ہے کہ کیا کرنا ہے۔ بلوچ سیاست اور عوامی جدوجہد کی شدت اور وسعت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شاید مقتدرہ کو اندازہ نہیں تھا کہ زندہ اکبر بگٹی سے مارا گیا اکبر بگٹی زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔ مقتدرہ نواب بگٹی کو قتل کر کے ہار گئی جبکہ نواب بگٹی مر کر بھی جیت گئے۔ آج وہ بلوچوں کے قومی ہیرو ہیں اور بلوچ اپنے اس بزرگ لیجنڈری ہیرو کی موت پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے۔
ذاکر بلوچ کا قتل ایک واضح پیغام
یوم آزادی سے صرف دو دن قبل 12 اگست 2024 کو ایک بلوچ نوجوان اور قابل سول سرونٹ ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر علی بلوچ کو سرِ راہ انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ اسے ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی اور تسلسل کہا جاتا ہے۔ 2020 میں یوم آزادی سے ایک دن قبل تربت میں حیات بلوچ کو دن دیہاڑے والدین کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ ایک طرف ذاکربلوچ کے بہیمانہ قتل سے پورا بلوچستان سوگوار تھا جبکہ دوسری طرف پیرس اولمپکس میں ایک معمولی کارکردگی دکھانے پر پنجاب کے رہائشی ارشد ندیم کو قومی ہیرو اور شیر پاکستان کا خطاب دیا جا رہا تھا۔ وہ کارپوریٹ میڈیا کے ٹاک شوز اور خبروں کی شہ سرخیاں بنا ہوا تھا۔ سرکاری سطح پر اس پر کروڑوں روپے نچھاور کیے جا رہے تھے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس کے اعزاز میں ایک پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 8 کروڑ روپے اور ایک انتہائی لگژری گاڑی تحفے میں عنایت کر دی۔ گورنر پنجاب نے 20 لاکھ اور ایک گاڑی تحفے میں دے دی جبکہ گورنر سندھ نے اسے 20 لاکھ روپے بطور انعام، پوری فیملی کے لیے آئی فون اور والدہ کے لیے ستارہ امتیاز کی سفارش کر دی۔ دوسری طرف بلوچ ماؤں کو یوم آزادی کے موقع پر تحفے میں لاشیں اور تابوت دیے جا رہے ہیں۔ یہ واقعات اور پیغامات انتہائی غور طلب ہیں۔