انگریزی اخبار ڈان کی خبر کے مطابق 19 دسمبرکو جاری ہونے والے صدارتی آرڈینس کے مسودے میں کہا گیا کہ 'این آئی ایچ کو از سر نو منظم کرنا اور پاکستان میں موذی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ریسرچ کرنے کے لیے اداروں اور مراکز کو چلانے اور ان کا انتظام کرنے کے لیے ادارے کو خودمختار بنانا بہتر ہے۔
مسودے میں لکھا گیا کہ ایسے میں جب سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہورہا ہے اسی لئے قومی ادارہ صحت کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر صدارتی آرڈینس کے ذریعے پرائیویٹائز کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔
مسودے میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ملازمین این آئی ایچ میں شامل ہونے کی تاریخ سے سرکاری ملازم نہیں رہیں گے اور ان کے تجربے اور این آئی ایچ کے ساتھ ملازمت کے علاوہ دیگر معاملات کا بورڈ کی تجویز کے مطابق تعین کیا جائے گا۔
وزارت این ایچ ایس کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان اخبار کو بتایا کہ 'یہ آرڈیننس ویسا ہی ہے جیسا پمز کے لیے نافذ کیا گیا تھا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ملازمین سرکاری ملازمین کی حیثیت سے محروم ہوجائیں گے اور بورڈ آف گورنرز کو نئے ملازمین کی تقرری اور انہیں برطرف کرنے کے تمام اختیارات مل جائیں گے، اگر ملازمین نے اپنے سرکاری ملازمین کی حیثیت سے سرنڈر کرنے سے انکار کر دیا تو انہیں اضافی لوگوں میں شمار کیا جائے گا'۔