جاوید چودھری نے لکھا کہ عمران خان نے نادانی میں ملک کا سارا معاشی پہیہ روک دیا ‘ سی پیک گیم چینجر تھا لیکن یہ حکومت کی بے وقوفیوں کی وجہ سے رک گیا‘ حکومت قوم کو بار بار تسلیاں دے رہی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے‘ سی پیک پر کام بہت سست ہو چکا ہے اور چین اس حکومت پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں‘ اس نے ساڑھے تین برسوں میں مواصلات کے وفاقی وزیر مراد سعید کو ایک بار بھی چین کے دورے پر نہیں بلایا تاہم نواز شریف کے ساتھ چین کے تعلقات اب بھی آئیڈیل ہیں اور اگر میاں نواز شریف واپس آتے ہیں تو چین ہماری معیشت میں 35 بلین ڈالر ڈالنے کے لیے تیار ہو جائے گا اور یوں ہم معاشی گرداب سے نکل آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست بھی اچھی طرح جانتی ہے ہم اگر یہ ڈیل نہیں کرتے تو پھر ہمیں قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے اپنے ایٹمی پروگرام سے محروم ہونا پڑے گا اور یہ موت کے برابر ہوگا‘ انڈیا ہمیں اس کے بعد سانس تک نہیں لینے دے گا لہٰذا مذاکرات ہوئے اور بات تقریباً فائنل ہو گئی مگر ایشو یہ تھا اگر میاں نواز شریف کو واپسی کا موقع دے دیا جاتا ہے‘ یہ الیکشن لڑتے ہیں اور یہ اگر چوتھی بار وزیراعظم بن جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے یہ انتقام نہیں لیں گے‘ یہ جسٹس ثاقب نثار‘ دو سابق ڈی جی آئی ایس آئی ‘ ایک ریٹائرڈ آرمی چیف اور عمران خان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن نہیں بنائیں گے۔
انہوں نے لکھا کہ یہ خدشات درست تھے لیکن دو دوست ملک نواز شریف کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہیں‘ یہ چاہتے ہیں میاں نواز شریف واپس آئیں ‘ جیل جائیں ‘ مقدمہ لڑیں اور انھیں اس بار ’’فیئر ٹرائل‘‘ دیا جائے اور فیصلہ اس بار واٹس ایپ پر نہیں ہونا چاہیے‘ الیکشن ہوں اور اگر عوام میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنا دیتی ہے تو ان کے راستے میں کوئی دیوار کھڑی نہ کی جائے ‘ میاں نواز شریف اور مذاکراتی ٹیم اس کے لیے راضی ہو چکے ہیں لیکن پارٹی اور خاندان کے چند لوگ میاں صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں ’’آپ جب تک عدالتوں سے رہا نہیں ہو جاتے‘ آپ کے بارے میں جب تک فیصلہ نہیں آ جاتا میاں نواز شریف اور مریم نواز کو 2018 میں غلط سزا دی گئی تھی آپ اس وقت تک واپس نہ آئیں‘ انھیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے دسمبر ملک اور سیاست دانوں کے لیے بھاری ہوتا ہے۔