گزشتہ روز پی اے سی کا اجلاس چیئرمین نورعالم خان کی صدارت میں ہواجس میں وزارت آبی وسائل سے متعلق سال 2019-20 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیاگیا۔
پی اے سی نے وزارت آبی وسائل کی آڈٹ رپورٹس کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل کو ڈیم فنڈ کا آڈٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اجلاس میں آڈیٹر جنرل محمد اجمل گوندل پیش ہوئے۔ تاہم انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے فنڈز وصولی کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا جارہا۔
چیئرمین نے کمیٹی اسٹاف کو ہدایات دیں کہ تمام منسٹریز کو خط لکھیں کہ ویری فیکیشن کے حوالے سے جو بھی آڈٹ آفیسر آپ سے لیفٹ رائٹ مانگنا چاہتا ہے وہ پی اے سی اور وفاقی سیکرٹریز کو بتا دیں۔ہم ایکشن لیں گے.
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا کہ چیف جسٹس اپنے پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کو ہدایت دیں کہ وہ آڈیٹر جنرل کو معلومات فراہم کرے۔ احتساب، عدالت اور آئین کی بالا دستی کیلئے یہ ضروری ہے۔ ہمیں آگاہ کیا جائے کہ بھاشا ڈیم کیلئے کہاں سے کیسے اور کتنا پیسا جمع ہوا؟ ڈیم فنڈ میں لوگوں نے دس دس روپے سے لے کروڑوں اور اربوں روپے جمع کروائے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان غیر آئینی اقدام میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیں۔
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے دیامر بھاشاڈیم، مہمند ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، نیلم جہلم منصوبے اور کے فور کراچی کے منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم دے دیا۔
اجلاس میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے میں کنٹریکٹرز کو کام شروع ہونے سے پہلے ایڈوانس رقم دیئے جانے سے متعلق معاملہ زیر غور آیا جس پر آڈٹ حکام کی جانب سے کمیٹی کو معاملے سے متعلق بریفنگ دی گئی۔رکن کمیٹی وجیہہ قمر نے کہا کہ ابھی تعمیر شروع نہیں ہوئی زمین نہیں ہے اورپیسے ایڈوانس میں دے دیئے۔ ٹھیکیدار کون تھا کس کو نوازا گیا؟
سیکرٹری آبی وسائل نے کمیٹی کو بتایا کہ ابھی تک زمین لی جارہی ہے رکن کمیٹی برجیس طاہر نے کہا کہ یہ ساڑھے چار ارب روپے کی پیمنٹ ہوئی، ایک روپیہ تو نہیں ہے، متعلقہ حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ92فیصد زمین حاصل کر لی گئی ہے، زمین کے حصول کے لئے18ارب ادا کر چکے ہیں.
چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ انکوائری کریں اور ذمہ داروں کا تعین کریں۔ نور عالم خان نے واپڈا کے مختلف منصوبوں میں خلاف ضابطہ طور پر بھرتی ہونے والے افراد کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ 114لوگ ہیں۔ ان کو کس قانون کے تحت ہائیر کیا گیا۔ اس میں بے ضابطگیاں ہیں۔ ایک ٹیلی ویژن آرٹس بھی دو لاکھ روپے لے رہی ہیں۔ ان لوگوں کوفارغ کریں.
اجلاس میں نئی گاج ڈیم منصوبے کے لئے کنٹریکٹر کی جانب سے جعلی بینک گارنٹی دیئے جانے سے متعلق معاملہ تحقیقات کے لئے نیب کے سپرد کردیا گیا۔
واضح رہے کہ جولائی 2018 میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی جانب سے ڈیم فنڈ میں قائم کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر خاص طور پر ان 2 آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے عطیات کی درخواست کی گئی تھی۔
اس وقت کے وزیر اعظم پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی ثاقب نثار کی جانب سے شروع کی گئی چندہ مہم میں ان کی حمایت کی تھی اور اس مہم کو ملک میں قلت آب پر قابو پانے کے لیے مشترکہ منصوبہ بنالیا تھا۔
مارچ 2019 تک ڈیم فنڈ میں 10 ارب روپے جمع کرائے گئے تھے جب کہ مبینہ طور پر اس فنڈ کی تشہیر پر 13 ارب روپے خرچ کیے گئے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے رواں سال کے شروع میں ثاقب نثار کو فنڈ سے متعلق وضاحت کے لیے طلب کیا تھا لیکن وہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں ہوئے تھے۔