اعزاز سید نے یوٹیوب چینل پر اپنے وی-لاگ میں بتایا کہ وزیراعظم آفس کی آڈیو لیک میں ملوث فوجی اہلکار پکڑا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کے پیچھے وزیراعظم کے معاون ڈی کیمپ (اے ڈی سی) میجر ارسلان ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میجر ارسلان لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے اے ڈی سی تھے جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ جب لیفٹیننٹ (ر) جنرل فیض کا تبادلہ پشاور کیا گیا تو انہوں نے میجر ارسلان کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو اے ڈی سی کے طور پر "تحفے میں" دیا تاکہ عمران خان کو ہٹائے جانے کی صورت میں آنے والے وزیراعظم کے حوالے سے خبر ملتی رہے۔
عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد میجر ارسلان وزیر اعظم شہباز شریف کے اے ڈی سی کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے لیکن جب وزیراعظم ہاوس کی آڈیو لیکس کی تحقیقات شروع ہوئیں تو وزیراعظم کے اے ڈی سی کو ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم نے حراست میں لے لیا۔ تحقیقات میں اے ڈی سی نے بتایا کہ میں تو اپنے باس لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے حکم پر یہ کام کر رہا تھا۔ میجر ارسلان اپنے محسن لیفٹیننٹ جنرل فیض کے وفادار رہے۔ میجر ارسلان کے پاس ایک فون یا کمیونیکیشن ڈیوائس تھی جسے وہ پی ایم او میں ہونے والی میٹنگز کو ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے اور یہ ڈیوائس صرف ایک دوسری ڈیوائس سے رابطہ کر رہی تھی جس کی لوکیشن بہاولپور کی تھی۔
میجر ارسلان نے اپنے کردار کا اعتراف کیا اور یہ آلہ رضاکارانہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسی کے حوالے کر دیا۔ میجر ارسلان نے سابق جاسوس اور اس وقت کے کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل فیض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ " اپنے باس فیض حمید کے حکم پر یہ کام کر رہا تھا۔'
https://twitter.com/SocialDigitally/status/1608160787108970497?s=20&t=nTd52Y-OYMqk4eSSq_udOA
اعزاز سید کا دعویٰ ہے کہ کچھ معلومات اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ تک پہنچی تھیں جنہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم تک پہنچائی تھیں۔ معاملے کی لیڈ ملتے ہی میجر ارسلان کو شناخت کر کے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ اتنا بڑا بریک تھرو تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی برطانیہ سے واپسی پر ڈی جی آئی ایس آئی خود ان کا استقبال کرنے ایئرپورٹ پہنچے۔ اعزاز سید کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی نے ذاتی طور پر وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ پی ایم او سے آڈیو لیک ہونے کا مرکزی ملزم حراست میں لیا جا چکا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے اعزاز سید نے کہا کہ ایک بار جب یہ ثابت ہو گیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا تعلق موجودہ حکومت کی آڈیو لیکس سے ہے تو ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہونے والا تھا تاہم جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے مداخلت کی اور اس عمل کو روک دیا گیا۔
واضح رہے کہ ستمبر کے آخر میں، وزیراعظم شہباز شریف، ان کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ، مریم نواز اور دیگر سینئر وزراء کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو فائلیں ڈارک ویب پر اور پھر سوشل میڈیا پر سامنے آئی تھیں۔ یہ بات چیت مبینہ طور پر پی ایم او کی محفوظ حدود میں ہوئی تھی۔ انٹیلی جنس بیورو کو سیکورٹی کی اس بے مثال خلاف ورزی کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا۔
ستمبر کے آخر میں، معتبر ذرائع نے اطلاع دی کہ موجودہ حکومت کے بارے میں اب کوئی آڈیو لیک نہیں ہو گی کیونکہ ڈارک ویب پر یہ آڈیو لیک کرنے والے شخص کو سخت وارننگ دی جاچکی تھی۔