پریس ریلیز کے مطابق اس چيز کے کوئی شواہد نہیں کہ مظاہرین تشدد کی طرف مائل ہوئے تھے، البتہ ویڈیو فوٹیج میں ان میں سے کئی افراد کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق یہ اقدامات غیرآئینی ہیں اور شہریوں کی آزادیِ اظہار اور پُرامن اجتماع کے حق کے منافی ہیں۔ سیاسی اختلاف رائے جس نے کسی بھی طرح سے نفرت یا اشتعال کی ترغیب نہیں دی، کو دبانے کے لیے ایک فرسودہ قانون کے تحت بغاوت کے الزامات کے بے جا استعمال سے معلوم ہو گیا ہے کہ ریاست کی نظر میں اپنے شہریوں کے سول و سیاسی حقوق کی اہمیت کس حد تک کم ہے۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے، ریاست کا یہ اقدام اُن شہریوں کے ساتھ اُس کے سلوک کی عکاسی کرتا ہے جنہوں نے اُس کی پالیسیوں سے پُرامن اختلاف کا راستہ اپنایا۔
ایچ آر سی پی کی پریس ریلیز میں عمار رشید، نوفل سلیمی، سیف اللہ نصر اور شاہ رخ عالم سمیت تمام قید کیے گئے افراد کی فی الفور اور غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ہم حکام سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کے پُرامن مظاہروں سے نبٹتے وقت طاقت کے بے جا استعمال سے پرہیز کیا کریں۔
یاد رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کرنے پر گرفتار کیے گئے 23 افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا جبکہ پی ٹی ایم رہنما اور رکن اسمبلی محسن داوڑ کو جیل سے رہا کردیا گیا۔
اس سے قبل شہباز شریف کا اپنے ٹویٹر پیغام میں کہنا تھا کہ پرامن مظاہرہ کرنا بنیادی انسانی حقوق میں شمار ہوتا ہے۔ آئین میں تمام مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کا لائحہ عمل موجود ہے۔ پولیس کی جانب سے ایم این اے محسن داوڑ، عمار رشید اور انکے ساتھیوں کے ساتھ کیے جانا والا سلوک افسوناک ہے۔
https://twitter.com/CMShehbaz/status/1222510991335985152?s=20
اس سے قبل بلاول بھٹو نے بھی اسلام آباد میں مظاہرین کی گرفتاری پر مذمتی بیان جاری کیا۔
https://twitter.com/BBhuttoZardari/status/1222143707056615425?s=20
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت دیگر سیاسی کارکنان کی گرفتاری کو حکومت کی آمرانہ پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیا پختون اپنے حقوق کیلئے آواز نہیں اٹھائیں گے، اپنے حقوق کیلئے پرامن احتجاج کرنیوالوں کو گرفتار کیا جائیگا؟ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والوں کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرنیوالے پختونوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پختونوں کے ساتھ روا رکھا جانیوالا رویہ ملک کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔ دہشتگردی نے پختونوں کے معاش اور اقتصاد کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، اب سلیکٹڈ حکومت پختونوں کو دیوار سے لگانے میں مصروف ہیں۔
واضح رہے ایک روز قبل محسن داوڑ اور ان کے ساتھ دیگر افراد کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر سے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کی نقل کے مطابق مظاہرے میں شریک افراد کے خلاف بغاوت سمیت مختلف الزامات پر مقدمہ درج کیا گیا تاہم اس ایف آئی آر میں محسن داوڑ کا نام شامل نہیں۔
دوران سماعت 23 افراد کے وکیل اسد جمال نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین کسی رکاوٹ یا کسی بھی طرح کی مزاحمت نہیں کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دباؤ کے تحت پولیس نے پرامن مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ 'پولیس کیس بدنیتی پر مبنی ہے (کیونکہ) تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 اے (فوج کو بدنام کرنا)، 505 بی (عوامی فسادات کے لیے بیان بازی) اور 124 اے (بغاوت) کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا'۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس نے کہا کہ فورسز کے خلاف نعرے لگائے گئے، نعرے لگانے والے کون تھے؟ پولیس کے پاس اس کے کیا ثبوت ہیں؟' اسد جمال کا کہنا تھا کہ اس کیس کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ پرامن مظاہریں کو گرفتار کیا گیا۔
علاوہ ازیں پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی چالان بنانا ہے اور کچھ ثبوت جمع کرنے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے 23 افراد کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا حکم دیا کہ تمام افراد کو 12 فروری کو دوبارہ پیش کیا جائے۔
محسن داوڑ کی رہائی
قبل ازیں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں جیل سے رہا کردیا گیا تاہم دیگر مظاہرین اب بھی حراست میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کو اسلام آباد پولیس نے محسن داوڑ اور پی ٹی ایم دیگر 28 کارکنان کو نیشنل پریس کلب کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے گروپ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
ادھر رہائی کے بعد ٹوئٹر پر مختلف ٹوئٹس میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کررہی تھی کہ اس دوران انہیں گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 'دنیا بھر میں مظاہرین کی جانب سے تشدد کی کوئی ایک رپورٹ نہیں تھی، میں خود اسلام آباد میں مظاہرے میں موجود تھا اور دیگر مقامات کی طرح یہاں بھی مظاہرین پرامن تھے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'تاہم ریاست نے ایک مرتبہ پھر ہمیں یاد دلایا کہ ہمارے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ وہ ہماری گرفتاری کے لیے بھی کوئی بنیاد بنانا گوارہ نہیں کرتے'۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'مجھے، پی ٹی ایم اور (عوامی ورکرز پارٹی) اے ڈبلیو پی کے کامریڈز عصمت شاہجہاں، عمار راشد اور دیگر سمیت گھسیٹا گیا'۔
رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہماری گرفتاری کے بعد ہمیں مختلف تھانوں میں تقسیم کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 'مجھے پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ مجھے چھوڑ رہے ہیں، (تاہم) میں نے انہیں کہا کہ جب تک تمام دیگر افراد کو نہیں چھوڑتے میں نہیں جاؤں گا، پھر اس کے بعد وہ واپس آئے اور مجھے کہا کہ وہ تمام افراد کو چھوڑ دیں گے، جس کے بعد میں نے وہاں سے آنے کا فیصلہ کیا'۔
محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ کچھ مظاہرین ابھی تک جیل میں ہیں اور زیر حراست افراد کی مکمل تعداد کا اندازہ لے کر وہ ان کی رہائی تک مظاہرہ کریں گے۔
ایف آئی آر درج
دریں اثنا اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 188 (سرکاری ملازم کی جانب سے جاری حکم کی نافرمانی)، 353 (سرکاری ملازم پر حملہ)، 147 (ہنگامہ آرائی)، 149، 505 اے (فوج کو بدنام کرنے) 505 بی (عوامی فسادات کے لیے بیانات دینا)، 124 اے (بغاوت)، 341 (غلط کام کے لیے سزا)، 186 (سرکاری ملازم کو فرائض کی ادائیگی سے روکنا) شامل ہے۔
منگل کو درج کیے گئے اس مقدمے میں 23 افراد کا نام شامل تھا لیکن محسن داوڑ کا نام اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
سٹی مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ چانڈیو کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین کو بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد کے علاقے میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 144 نافذ ہے جس کے تحت 5 یا اس سے زائد افراد کا ایک ساتھ اکٹھا ہونا منع ہے، تاہم مظاہرین نے پاک فوج اور ریاست کے خلاف اور منظور پشتین کے حق میں نعرے بازی کی جبکہ انہوں نے سڑک بھی بلاک کی۔
منظور پشتین کی گرفتاری
واضح رہے کہ منظور پشتین کو 27 جنوری کی علی الصبح پشاور کے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر شہر کی سینٹرل جیل بھیج دیا تھا۔
تاہم بعد ازاں 28 جنوری کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پشاور کی مقامی عدالت کے حکم پر ڈیرہ اسمٰعیل خان منتقل کردیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سٹی پولیس تھانے میں پی ٹی ایم کے سربراہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 (مجرمانہ دھمکیوں کے لیے سزا)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کا فروغ)، 120 بی (مجرمانہ سازش کی سزا)، 124 (بغاوت) اور 123 اے (ملک کے قیام کی مذمت اور اس کے وقار کو تباہ کرنے کی حمایت) کے تحت درج کیا گیا۔
ایف آئی آر کی نقل کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں منظور پشتین اور دیگر پی ٹی ایم رہنماؤں نے ایک جلسے میں شرکت کی جہاں پی ٹی ایم سربراہ نے مبینہ طور پر کہا کہ 1973 کا آئین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق منظور پشتین نے ریاست سے متعلق مزید توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔