یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں راوی ریور منصوبے پر بات کرتے ہوئے کہی۔ اس اہم معاملے پر بات کرنے کیلئے پروگرام میں معروف وکلا آمنہ قادر اور وقار احمد شیخ بھی شریک تھے۔
آمنہ قادر کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے واضح کر دیا ہے کہ روڈا نے لاہور ریور راوی پراجیکٹ کیلئے کوئی ماسٹر پلان فراہم نہیں کیا تھا۔ اس کے بغیر کوئی بھی پراجیکٹ شروع ہی نہیں ہو سکتا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی پراجیکٹ میں ماسٹر پلان کے تحت سیوریج کا نظام، میونسپلیٹی، فارسٹ اور دیگر اہم چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن عدالت میں جو رپورٹ پیش کی گئی اسے صرف لینڈ کو استعمال کرنے کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔
آمنہ قادر کا کہنا تھا کہ روڈا کی جانب سے عدالت کو مائن ہارٹ کمپنی کی فزیبلیٹی رپورٹ بھی دی گئی تھی تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمپنی کو ایل ڈی اے نے خود بلیک لسٹ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں یہ قوانین ہیں کہ اگر کسی زرعی زمین کو اشد ضرورت کے تحت حاصل کیا جاتا ہے تو اتنی ہی زمین کو محفوظ کرنے کا بھی بندوست کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس سے مستقبل میں خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے بھی عدالت کو یہی مشورہ دیا تھا لیکن 77 ہزار ایکٹر پر مشتمل کسی اور جگہ زمین ایکوائر کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ راوی ریور پراجیکٹ جہاں شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا وہاں ہماری تمام اہم فصلیں اور پھل اگتے ہیں۔ عدالت کے سامنے یہ پرابلم بھی آئی کہ پاکستان گذشتہ سال گلوبل ہنگر انڈیکس میں 116 ملکوں میں 92 نمبر پر آیا تھا۔ اگر اتنے بڑے رقبے پر مشتمل زمین پر شہر بنانے کی اجازت دیدی جائے تو خوراک کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
احمد رافع عالم کا کہنا تھا کہ راوی کنارے ایک نیا شہر بسانے کا آئیڈیا کوئی نیا نہیں ہے۔ 2003ء میں جب صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ق کی حکومت آئی تو انہوں نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ تاہم اس وقت ایل ڈی اے، نیسپاک اور لاہور میٹروپولٹن نے ایک ماسٹر پلان بنایا جو کہ اس وقت ضلعی ناظم میاں عامر کی حکومت نے adopt بھی کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کہا گیا کہ ہندوستانی بارڈر اور دریائے راوی کی وجہ سے شہر کا پھیلائو رائے ونڈ کی جانب جانا چاہیے۔ کیونکہ لاہور کے اردگرد زرعی علاقے ہیں جن کو بچانا ضروری ہے۔ اسی کی بنیاد پر 2003ء سے لے کر 2010ء تک جتنی بھی اربن ڈویلپمنٹ ہوئی وہ رائیونڈ کی جانب ہی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم جب 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی سوچا کہ ہم دریائے راوی کے کنارے ایک منصوبہ تعمیر کریں گے۔ اس مقصد کیلئے ایک بین الاقوامی کمپنی کو بھی پاکستان میں مدعو کیا گیا اور اس سے فزیبیلیٹی سٹڈی مانگی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ مائن پارٹ نے جب اپنی رپورٹ پیش کی تو شہاز حکومت کو یہ منصوبہ مہنگا لگا۔ اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا۔ وقت گزارا اور جب 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس نے اس منصوبے کو ایک تیسری زندگی دینے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ منصوبہ سالہا سال سے پراپرٹی ڈویلپرز کی خواہش ہے کہ دریائے کنارے جو لوگ آباد ہیں انھیں کسی نہ کسی طرح ان کو وہاں سے ہٹا کر زرعی زمینوں کو رہائشی علاقوں میں بدل دیں اور اپنا منافع کمائیں۔ پچھلے سال جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو لاہور کی سول سوسائٹی اور علاقے کے کسانوں نے عدالت میں اپنی درخواستیں دینا شروع کر دیں۔
وقار اے شیخ کا کہنا تھا کہ زرعی زمینوں پر غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کی تعمیر ہو رہی ہے تو کیا اس کو جواز بنا کر حکومت بھی ایسے کام شروع کر دے گی۔ ریور روای منصوبے کیلئے جو زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی وہ ایک لاکھ سات ہزار ایکڑ پر محیط ہے، اس میں سے 75 ہزار زمین زرعی ہے جہاں پر کسان کاشتکاری کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہمارے پاس لاہور میں آج تک کوئی ایسی سکیم نہیں بنی جس کا رقبہ 75 ہزار ایکڑ ہو۔ لاہور میں سب سے بڑی سکیم جوہر ٹائون ہے جو 3200 ایکٹر پر قائم ہے جو 1993ء میں بنائی گئی تھی۔ جب بھی کوئی ماسٹر پلان بنتا ہے تو اس میں لازمی طور پر گرین ایریا کو رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ راوی ریور پراجیکٹ پہلے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دیا گیا تھا لیکن اس سے اسے واپس لے کر روڈا اس لئے بنایا گیا کیونکہ ایل ڈی اے کو یہ مشکل پیش آ رہی تھی کہ ہم تو خود ماسٹر پلان کنٹرولنگ اتھارٹی ہیں، اگر ہم ہی گرین ایریاز پر کمپرمائز کر لیں تو وہ ختم ہو جائے گا۔