سندھ کے آنسو 70 سالوں سے کیوں بہہ رہے ہیں؟

04:11 PM, 29 Jul, 2020

حسنین جمیل
سوبھو گیان چندانی اور شخ ایاز کی سرزمین سندھ کے آنسو 70 سالوں سے بہہ رہے ہیں۔ چار منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان علی جونجیو، بے نظیر بھٹو۔ دو نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی، محمد بحش سومرو۔ تین منتخب صدر آصف علی زرداری، ممنون حسین، ڈاکٹر عارف علوی۔ فوجی حکمران پرویز مشرف۔ اتنے سارے حکمران مل کر بھی اس عظیم ادبی تاریخی تہذیبی روایات کے امین صوبے کے مسائل حل نہیں کر سکے۔

سندھ وطن عزیز کا واحد صوبہ ہے جس کے دو حصوں شہری سندھ اور دیہی سندھ میں وسیع پیمانے پر خلیج ہے۔ ارود بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں میں تضاد بھی بہت گہرا ہے، جس کی اپنی تاریخ ہے۔ نامور محقق اور لکھاریوں زاہد چودھری اور حسن جعفر زیدی نے ایک کتاب سندھی مہاجر تضاد بھی لکھی ہے۔

وطن عزیز کے دیگر صوبوں پنجاب، بلوچستان، خبیر پحتونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر(جو صوبہ نہیں اکائی ہے) کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے۔ وہاں تضادات اتنے شدید نہیں ہیں۔ پنجاب میں سرائیکیوں اور پنجابیوں کے درمیان جو تضاد ہے، وہ زبان کی حد ہیں، سیاسی نوعیت کے نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ہے سرائیکی اور پنجابی علاقوں میں ایک ہی سیاسی جماعت کو کامیابی ملتی ہے۔ کبھی پیپلزپارٹی کبھی مسلم لیگ ن اور اب تحریک انصاف۔

سیاسی تضادات ہو نہیں سکتے صرف زبان کا مسئلہ ہی رہا۔ سرائیکیوں نے تخت لاہور کی بادشاہی کے خلاف نعرے تو بہت لگائے مگر عملی طور پر احتجاج نہیں کیا اس کی بنیادی وجہ ہمیشہ ہی ہے، جس جماعت کا وزیراعلیٰ تخت لاہور پر براجمان ہوتا، اس کی جماعت کی نمائندگی سرائیکی علاقوں میں بھی ہوتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سرائیکی اور پنجابی علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کو کامیابی ملی ہو۔

اس وقت بھی پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سرائیکی ہیں اور تونسہ شریف ڈیرہ غازی خان سے منتخب ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے صوبہ سندھ میں شہری اور دیہی تضاد بہت گہرا ہے۔ 5 کروڑ سے زائد آبادی کے اس صوبے میں شہری سندھ، کراچی حیدرآباد اور باقی سارا دیہی سندھ ہے۔

کراچی اور حیدرآباد اردو بولنے والوں کا گڑھ ہے، وہاں ہمشہ متحدہ قومی موومنٹ جیتی ہے۔ اب کی بار تحریک انصاف فاتح رہی جبکہ دیہی سندھ ہمشہ پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ سندھ کی دیہی آبادی چونکہ زیادہ ہے، اس لیے حکومت ہمیشہ پیپلزپارٹی نے بنائی۔

حالیہ مردم شماری کے بعد اُردو بولنے والوں نے کراچی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا، سندھ حکومت نے سازش کے تحت کراچی کی آبادی کم کی۔ اگر ٹھیک مردم شماری ہوتی تو شہری آبادی، دیہی آبادی سے زیادہ ہو جاتی۔ کراچی کی سیٹیں زیادہ کرنی پڑتی اور سندھ کا وزیراعلیٰ اردو بولنے والا ہو جاتا۔

آج تک سندھ میں اردو بولنے والا وزیراعلیٰ نہیں بن سکا۔ سندھ ہمیشہ پیپلز پارٹی کے پاس رہا۔ شہری سندھ پہلے متحدہ قومی موومنٹ، اب تحریک انصاف کے پاس ہے۔ صوبے کے دونوں حصوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ 1990، 1996، 2002 کے انتخابات میں سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالف اتحاد نے حکومت بنائی مگر وزیراعلیٰ سندھی بولنے والا ہی بنا۔ کسی وزیراعلیٰ نے کراچی کو اپنا شہر نہیں سمجھا۔ کراچی پاکستان کا دل ہے اور منی پاکستان ہے۔ مختلف قوموں اور تہذیبوں کا شہر ہے۔

اردو بولنے والے، سندھی، مکرانی، بلوچی، پختون، بہاری، بنگالی، پنجابی، ہندو پارسی اور کرسچن ایک گل دستہ کی طرح ہیں۔ جن کی وجہ کراچی مہک رہا ہے۔

کراچی کے مسائل حل طلب ہیں، وقاقی حکومت 18وہں ترمیم کا رونا روتی ہے مگر کراچی کی عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے، ان کی ذمہ داری ہے کراچی کے مسائل حل کرنا۔ وزیراعظم عمران خان کراچی سے بھی الیکشن جیتے اور سیٹ چھوڑ دی، بعد میں تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن عالمگیر خان وہاں سے منتخب ہوئے۔ لہذا وفاقی حکومت کو کراچی کے مسائل حل کرنے چاہیے۔

دوسری طرف دیہی سندھ کے حالات بھی سازگار نہیں ہیں۔ تھر میں بچے بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ ہسپتال میں کتا کاٹنے کی ویکسین نہیں ہے۔ اس کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے۔ سوبھو گیان چندانی اور شخ ایاز کی سرزمین کے باسیوں کو سوچنا چاہیے کہ کب تک بھٹو کے نام سے بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں بھٹو صاحب ایک عظیم قائد تھے۔ 7 سالہ دور حکومت میں وہ کچھ کر گئے جس پر ان کے جانشین 3 بار وفاق میں اور 5 بار سندھ میں حکومت میں آگئے۔

آج بھی سندھ کا ہاری جاگیر دار کا غلام ہے۔ سندھ سے بے نظیر 2 بار وزیر اعظم بنیں، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سپیکر قومی اسمبلی بنیں، شہلا مرزا ڈپٹی سپیکر سندھ ہیں مگر سندھ کی ہاری عورت آج بھی کاری ہو رہی ہے اور جاگیر دار اس کو روزانہ اجرت کے بدلے دو وقت کی روٹی دیتا ہے، سندھ کی ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے آنسو 70 سالوں سے بہہ رہے ہیں۔
مزیدخبریں