اس وقت تمام با خبر صحافی اس حوالے سے اشارے دے رہے ہیں کہ حکومتی اتحاد کسی بھی وقت پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ایم این ایز اس وقت حکومت سے جان چھڑوانے کی سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ملک کے نامور صحافی سہیل وڑائچ یکے بعد دیگر اپنے کالموں میں اسی جانب اشارہ کر چکے تو نجم سیٹھی نے بھی چہرے کی تبدیلی کے ساتھ قومی حکومت بنانے کے مقتدر حلقوں کے منصوبے کا عندیہ دیا ہے۔ نیا دور پر شائع ہونے والی صحافی علیم عثمان کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے 15ایم این ایز سے اڑان بھرنے کے لئے بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ جبکہ گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیر اعظم کے اعشایئے شو کے پھیکے پڑنے اور چوہدریوں کی جانب سے وزیر اعظم کی روٹی موڑنے کے بارے میں بھی خبروں سے سب واقف ہیں۔
اس سب میں ایک اہم اور سنسنی خیز اضافہ ملک کے سینئر اینکر پرسن اور صحافی حامد میر کی جانب سے ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے کالم با عنوان وہی اچھے تھے میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز انہیں علیحدہ ملاقاتوں میں بتا رہے ہیں کہ اگر انکو سنا نہ گیا تو وہ تحریک انصاف جلد چھوڑ دیں گے۔ جبکہ پارلیمنٹ کے سیکیورٹی پر معمور ملازمین نے عمران خان کے نام بگاڑ کر لینے اور ان سے جان چھڑانے کی استدعا شروع کر دی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ پریس گیلری کی طرف جانے والی سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو دائیں جانب سے آواز آئی’’پکڑ لو، پکڑ لو جانے نہ پائے‘‘۔ قومی اسمبلی کے اندر سے دو ماسک پوش تیزی سے میری طرف آئے اور کچھ فاصلے پر بریک لگا کر کہا آج ہمیں آپ کے پندرہ بیس منٹ چاہئیں۔
غور کیا تو یہ تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی تھے جو عام طور پر میڈیا سے دور رہتے ہیں لیکن میرے ساتھ پرانی شناسائی ہے کیونکہ پہلے بھی دو مرتبہ دو مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر ایم این اے بن چکے ہیں۔ اُن کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن قومی اسمبلی تھے اور کہہ رہے تھے کہ اگر آپ تکلیف کریں تو قریب ہی پارلیمنٹ لاجز میں چلتے ہیں۔ آپ سے بڑی ضروری بات کرنی ہے۔ مجھے حیرت ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنا ماسک درست کرتے ہوئے کہا کہ آج تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) ایک ساتھ مجھے ملنا چاہتے ہیں، خیر تو ہے صاحبان؟ مسلم لیگ (ن) والے صاحب گویا ہوئے کہ آپ سے کچھ عرض کرنا تھی آپ ہمارے پرانے مہربان ہیں، ہم آپ کو کم از کم بیس سال سے جانتے ہیں کچھ ذاتی گزارش کرنا ہے۔
اتنی دیر میں اسمبلی کے سیکورٹی اسٹاف کا ایک وائرلیس بردار افسر میرے قریب آیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا سلطان تباہ الدین کشکولی نے تو ہمیں برباد کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا اور پٹرول 25روپے فی لیٹر مہنگا کر دیا ہے۔ سلطان تباہ الدین کشکولی سے اچھے تو وہ چور تھے جنہیں آپ نے بہت کوسا لیکن ابھی تک اُن کی کوئی چوری نہیں پکڑی گئی۔ یہ سُن کر میں نے پوچھا کون سلطان تباہ الدین کشکولی؟ سیکورٹی افسر مسکرایا اور آگے چل دیا۔
تحریک انصاف کے ایم این اے نے اپنا آئی فون نکالا اور اس میں سے ایک میسج نکال کر دکھایا جس میں کہا گیا تھا کہ سلطان تباہ الدین کشکولی سے جان چھڑاؤ یا ہماری جان چھوڑ دو۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ سوشل میڈیا پر وزیراعظم اور کچھ اپوزیشن رہنماؤں سمیت کئی اہم شخصیات کے خلاف پروپیگنڈا مہم چل رہی ہے اسے سنجیدہ نہ لیں۔ ایم این اے نے قدرے بے تکلفی سے کہا کہ یہ لیکچر بعد میں دینا، پہلے ہمارے ساتھ پارلیمنٹ لاجز چلو۔ میں نے کہا یہیں کیفے ٹیریا یا چیمبر میں بات کر لیتے ہیں۔
جواب آیا نہیں، یہاں ہم سب پر بہت سے لوگوں کی نظر ہے، آپ لاجز چلیں۔ میں نے وعدہ کیا آدھے گھنٹے بعد لاجز آ جاؤں گا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے دفتر میں سینیٹر فاروق نائیک اور سینیٹر محمد علی سیف سے کچھ گپ لگائی اور میں پارلیمنٹ لاجز کی طرف چل پڑا۔
وہاں پہنچا تو خراب لفٹ اور ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں ارکانِ پارلیمنٹ کی رہائش گاہ کی زبوں حالی بیان کر رہی تھیں۔ تیسری منزل پر واقع ایک اپارٹمنٹ میں پہنچا تو تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے دونوں ارکان قومی اسمبلی میرا انتظار کر رہے تھے۔
تحریک انصاف والے صاحب کے ایک بھائی نے کہا بُرا نہ منائیں تو آپ تینوں اپنے موبائل فون میرے حوالے کر دیں، میں دوسرے کمرے میں لیجا کر ایک دراز میں بند کر دوں گا۔ یہ سُن کر میری ہنسی چھوٹ گئی لیکن آج کل تو حکومت کے اکثر وزراء بھی یہ احتیاط کرتے ہیں۔
یہ بھائی جان ہمارے فون لے کر باہر نکل گئے تو تحریک انصاف کے ایم این اے نے کہا کہ آپ تو جانتے ہیں ہم نے 2018ء کا الیکشن عمران خان کے نام پر نہیں اپنے زور پر جیتا تھا لیکن جیتنے کے بعد اس اُمید پر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے کہ پاکستان بدلنے والا ہے لیکن افسوس پچھلے چند ماہ سے اپنے حلقے میں جاؤ تو پبلک بہت بُرا بھلا کہتی ہے۔ آج پبلک کا مسئلہ کورونا وائرس نہیں مہنگائی ہے۔
اوپر سے ٹڈی دَل نے ہمارا بیڑا غرق کر دیا، پٹرول کی قیمت میں اضافے کو پبلک قبول نہیں کر رہی، کچھ دن پہلے ہم نے اپنی پارٹی کے کچھ ارکان اسمبلی کا ایک گروپ بنایا اور فیصلہ کیا کہ اگر جنوبی پنجاب والوں کے لئے پیکیج کا اعلان نہیں ہوتا تو ہم بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) سے رابطہ کیا تو اُدھر سے جواب آیا کہ ہم بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔
میں نے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے کی طرف دیکھا تو اُس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہمارا نواز شریف اور شہباز شریف سے کوئی براہ ِراست رابطہ نہیں، ہم نے یہاں اپنے کچھ بڑوں سے بات کی تو انہوں نے کہا نواز شریف کسی ایسے عمل کی حمایت نہیں کریں گے جس سے سسٹم کو خطرہ ہو لہٰذا بجٹ منظور ہونے دیں بعد میں کچھ کریں گے۔
میں نے پوچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ ہم کچھ ارکان قومی اسمبلی یہ سوچ رہے ہیں کہ راجہ ریاض اور خواجہ شیراز کی طرح حکومت پر کرپشن کے الزامات لگانے کے بجائے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ اگر ہم تحریک انصاف میں بیٹھے رہے تو آئندہ کبھی سیاست نہیں کر سکیں گے۔
میں نے پوچھا کیا کہہ کر استعفیٰ دیں گے؟ جواب آیا ہمارے ساتھ جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ کیا گیا وہ وعدہ پورا نہ ہوا ہمیں کہا گیا 90دن میں کرپشن ختم کریں گے، یہاں راتوں رات پٹرول مہنگا کر کے اربوں کی کرپشن کی جا رہی ہے، ہم کہیں گے آپ ڈاکو ہیں آپ سے اچھے تو وہ چور تھے جن پر کوئی چوری ثابت نہیں لیکن آپ کی ڈکیتی تو سب کو نظر آ رہی ہے۔ آپ سے مشورہ چاہئے کہ استعفیٰ دیں یا نہ دیں۔
حامد میر نے انہیں مشورہ نہ دیا اور اپنے صحافی ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جب وہ فیصلہ کر لیں گے وہ خبر نشر کرا دیں گے۔
تاہم ایہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کا تکیہ جن سہاروں پر تھا وہ اچانک تتربتر ہونے جا رہے ہیں۔ اور اس کا مطلب ہے کہ بگل بج چکا ہے کسی بھی وقت نعرہ لگ سکتا ہے ۔۔۔ تبدیلی آ نہیں رہی ۔۔۔ تبدیلی آگئی ہے۔