بلقیس ایدھی نے تعارف میں بتایا کہ عبدالستار ایدھی کا تعلق ''بانٹوا میمن'' کمیونٹی سے تھا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد انڈین گجرات سے نقل مکانی کر کے کراچی آ گئے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد ابتدا میں ایدھی صاحب شادیوں میں برتن دھونے جاتے، دودھ اور اخبار فروخت کرتے اور اس سے جو بھی آمدن ہوتی وہ چھوٹی موٹی فلاحی سرگرمیوں پر لگا دیتے۔ فلاحی کاموں سے ان کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے جلد ہی انھیں تھوڑا بہت چندہ بھی ملنا شروع ہو گیا تھا۔
کراچی آ کر ایدھی صاحب نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے کراچی کے علاقے میٹھادر میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ڈسپنسری قائم کی جہاں آس پاس کے علاقوں بلخصوص لیاری میں رہائش پذیر غریب افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔
بلقیس ایدھی کا کہنا تھا کہ ایدھی صاحب نے 1954ء میں پہلی ایمبولینس خریدی (بعض تاریخی حوالوں کے مطابق یہ 1956ء تھا)۔ ایدھی صاحب نے جو پہلی ایمبولینس خریدی تھی وہ دراصل ایک پرانی 'ہل مین وین‘ (Hill man van) تھی جو دوسری عالمی جنگ استعمال ہوئی تھی۔ بلقیس ایدھی کے مطابق یہ وین دو ہزار روپے میں خریدی گئی تھی اور بعدازاں اس کا انجن ناکارہ ہونے پر اس میں نیا انجن ڈلوایا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 1957ء میں جب چین سے ایشین فلو کی وبا دنیا بھر میں پھیلی تو عبدالستار ایدھی کو بڑے پیمانے پر فلاحی کام کرنے کا موقع ملا۔
بلقیس ایدھی نے بتایا کہ ایدھی صاحب جب بھی کراچی سے باہر ایمبولینس میں میت چھوڑنے جاتے تھے تو مجھے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہی ہمارا گھومنا پھرنا ہوتا تھا، اس کے علاوہ زیادہ کہیں نہیں آتے جاتے تھے۔
جس عمارت میں ایدھی صاحب کا ابتدائی گھر تھا اس بلڈنگ میں کچھ لڑکیاں بھی رہتی تھیں۔ بلقیس بتاتی ہیں کہ میتوں کو چھوڑنے جاتے تو وہ لڑکیاں بھی ساتھ چل پڑتیں۔واپسی پر دیہاتوں سے گزرتے تھے تو راستے میں ٹیوب ویل آتے، وہاں گاڑی ٹھنڈی کرنے کے لیے روکتے تھے۔ ٹیوب ویل میں مزا آتا تھا، سب پانی میں چلے جاتے تھے نہا دھو کر وہاں جھگیوں میں ہی مقامی افراد کو کچھ پیسے دیتے اور وہ کھانا تیار کر دیتے۔
بلقیس ایدھی نے ایدھی فاؤنڈیشن کے جھولا پراجیکٹ سے متعلق بتایا کہ پہلے پہل کچرے کے ڈھیروں سے روزانہ نومولود بچوں کی لاشیں یا زندہ بچے ملتے تھے۔ اس صورتحال پر ایدھی صاحب رات کو بیٹھ کر مجھ سے مشورہ کرتے تھے۔ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے، میں بھی زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ پھر ایک روز انھوں نے کہا کہ ہم جھولے لگائیں گے تاکہ لوگ بچوں کو ماریں نہ اور انھیں پھینکیں نہ کیونکہ کتے نوزائیدہ بچوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جس کے بعد ہم نے اپنے سینٹروں کے باہر جھولے لگائے اور لوگوں کو کہا کہ بچوں کو اس میں ڈال دیں، آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھے گا۔ لیکن ہمارے اس اقدام کی علما نے بہت مخالفت کی اور ہمیں جہنمی تک قرار دیا۔
بلقیس ایدھی نے کہا کہ اس اقدام کی بنا پر علما ہمیں کہتے تھے کہ تم دوزخ میں جاؤ گے، ہمیں کافر قرار دینے کے فتوے دیے۔ اس پر ایدھی صاحب نے کہا کہ مجھے تمہاری والی جنت میں نہیں جانا۔
بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو میں بلقیس ایدھی نے بتایا کہ ستر کی دہائی میں شام کے وقت کراچی کے سول اسپتال سے ایک ایمبولینس سندھ کے شہر سانگھڑ کے لیے روانہ ہوئی۔ ایمبولینس میں ایک جوان لڑکی کی میت موجود تھی جو کچھ دیر قبل ہی ٹی بی جیسے موذی مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوئی تھی۔
فوت ہونے والی لڑکی کی بوڑھی والدہ میت کے ہمراہ سراپا غم بنی بیٹھی تھیں۔جیسے ہی ایمبولینس سانگھڑ شہر کی حدود میں ایک سُنسان رستے پر پہنچی تو چند افراد نے ایمبولینس کو رُکنے کا اشارہ کیا۔ ایمبولینس کو روکنے والے یہ دراز قد افراد گھوڑوں پر سوار تھے اور انھوں نے سفید پگڑیاں سروں پر باندھ رکھی تھیں۔ ان ڈاکوؤں کا ارادہ ایمبولینس میں سوار لوگوں کو لوٹنے کا تھا۔ تاہم ڈاکوؤں کے ساتھ کچھ دیر ہونے والی بات چیت کے بعد ہلاک ہونے والی لڑکی کی ضعیف والدہ ایمبولینس سے اُتریں اور انہوں نے سندھی زبان میں ڈاکوؤں کو بتایا کہ اُن کی جوان لڑکی ٹی بی کے باعث وفات پا گئی ہے اور گاڑی میں اس کی میت ہے۔ خاتون نے ڈاکوؤں کو یہ بھی بتایا کہ اس ایمبولینس کو چلانے والا اور کوئی شخص نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی ہیں۔ یہ سُننا تھا کہ ڈاکو گھوڑوں سے اُتر آئے، ایمبولینس کے ڈرائیو کو بغور اوپر سے نیچے تک اس انداز میں دیکھا جیسے وہ بزرگ خاتون کے قول کی تصدیق کرنا چاہ رہے ہوں۔ ایدھی صاحب کو سر سے پاؤں تک دیکھنے کے بعد ایک ڈاکو بولا کہ ہم مر جائیں گے تو ہمیں ہمارے ماں باپ لینے نہیں آئیں گے، ہمیں یقین ہے تم لینے آؤ گے اور ہماری قبر پر مٹی بھی ڈالو گے۔ یہ کہہ کر ڈاکو نے ایدھی صاحب کا ہاتھ چوما اور اپنی جیب سے ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے سو روپے چندہ دیا اور ایمبولینس کو عزت کو احترام سے رخصت کر دیا۔
بلقیس ایدھی نے بتایا کہ ایدھی صاحب نے نوری آباد میں 20 روپے گز کے حساب سے 65 ایکڑ زمین لی تھی جو اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے دوران انٹرویو مُسکراتے ہوئے کہا کہ اب اللہ کرے اُس (زمین) پر کسی کی نظر نہ پڑ جائے۔
بلقیس ایدھی نے بتایا کہ ابتدا میں ہم ڈسپنسری کی چھت پر رہتے تھے، میرے تین بچے ہوئے تو انھوں نے وہاں ہی ٹی بی وارڈ کھول لیا۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ کے بچے چھوٹے ہیں، اب یہاں ٹی بی وارڈ کھل گیا ہے، آپ یہاں سے چلے جاؤ تو انھوں نے مجھے میری ماں کے پاس بھیج دیا۔میں بار بار ایدھی صاحب کو کہتی رہی کہ اپنا گھر دلا دو، جو تین کمروں کا ہو، جہاں گیلری ہو تاکہ میں اُس میں کپڑے دھو کر سکھا سکوں، لیکن انھوں کبھی میری بات نہیں مانی۔
بلقیس ایدھی آج بھی اسی ڈسپینسری کے کمرے میں رہتی ہیں۔ تین منزلہ عمارت میں فرسٹ فلور پر انتظامی دفتر اور مردوں کا دواخانہ ہے، دوسری منزل پر میٹرنٹی ہوم اور بلقیس ایدھی کا کمرہ جبکہ تیسری منزل پر پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کے کمرے، کلاس روم اور کچن ہے۔
بلقیس نے بتایا کہ ایدھی صاحب نے ایک دن وہاں دو قبریں کھدوا لیں اور مجھ سے کہا کہ ایک میری ہے اور ایک تمھاری ۔ میں نے کہا کہ میں تو وہاں نہیں جاؤں گی، اتنا دور ہے، وہاں تو کوئی فاتح پڑھنے بھی نہیں آئے گا۔ اس پر ایدھی صاحب نے کہا کہ تم مرو گی تو میں ہی پوچھنے آؤں گا نا۔ انہوں نے بتایا کہ ایدھی صاحب کی اسی قبر میں تدفین کی گئی جو قبر انہوں نے اپنے لیے بنوائی تھی۔