یہ لڑائی افغانستان کے بلخاب میں شروع ہوئی۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہزارہ کمانڈر مولوی مہدی مجاہد نے کابل میں طالبان حکومت سے مرکز اور صوبوں میں مختلف عہدے مانگے جس پر طالبان نے انکار کیا۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہزارہ کمانڈر اور طالبان کے درمیان کوئلے کے کانوں پر بھی شدید اختلافات تھے۔ جب اختلافات مزید بڑھ گئے تو طالبان نے صوبہ سرپل کے شہر بلخاب میں شیعہ کمانڈر کے علاقے پر چڑھائی کردی جس میں دونوں طرف سے ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں تاہم اس لڑائی میں شیعہ کمانڈر کے حامیوں کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ بتائی جارہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق مولوی مجاہد کو ایران کے قریبی سمجھا جارہا تھا۔ اس لڑائی کے بعد وہ روپوش ہوچکے ہیں اور طالبان نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے افغان طالبان نے ایک شیعہ ہزارہ فرد مولوی مہدی کو صوبہ سر پل کے لیے گروپ کا شیڈو ڈسٹرکٹ چیف مقرر کیا ہے۔ یہ تقرری غیر معمولی نظر آرہی تھی کیونکہ افغانستان کے ہزارہ شیعہ پہلے بھی طالبان کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار رہے تھے۔
افغان نیوز پورٹل خامہ کے مطابق یہ تقرری طالبان کی جانب سے اس لیے کی گئی تھی تاکہ شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے ارکان کو طالبان حکومت کی طرف راغب کیا جائے جبکہ انٹرا افغان امن مذاکرات سے قبل مولوی مہدی کی بھرتی انہیں کوششوں کا حصہ تھی۔
رپورٹ میں ایک افغان سیکیورٹی تجزیہ کار صابر ابراہیمی کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ افغان طالبان کچھ ’ٹوکن‘ شیعہ ہزارہ کو اپنے گروپ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان پہلے کبھی بھی شامل قوت نہیں رہے کیونکہ ان کے کوئٹہ اور پشاور کے چیپٹر اور دوحہ میں سیاسی دفتر سب سنی پشتون چلا رہے ہیں۔