اگر ہم برطانیہ کی مثال سامنے رکھیں جہاں دہری قومیت کے حامل سمندر پار پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد مستقلاً آباد ہے تو سمجھنا آسان ہوگا۔ برطانیہ میں 1880ء میں پانچ سے دس سال کی عمر کے بچوں کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا گیا۔
مختلف اصلاحات کے بعد اب 18 سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت معیاری تعلیم کا حق حاصل ہے۔ اگر کوئی بچہ اس دوران سکول سے غیر حاضر ہو یا تعلیمی نظام سے باہر نکل جائے تو اس کے والدین پر بھاری جرمانہ عائد ہوجاتا ہے انہیں جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔
بچوں کی الگ جیل یا اصلاحی سکول کا رواج بھی 1908ء میں برطانیہ سے شروع ہوا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان ہندوستان سمیت برطانیہ کہ تمام سابقہ نوآبادیات میں بورسٹل جیلوں کا نظام پایا جاتا ہے۔
بلوغت کی عمر کا تعین دراصل اس دور کا نقطہ آغاز ہے جب کسی فرد کو تعلیم کو خیر باد کہہ کر ازدواجی تعلقات رکھنے، خاندان بنانے، کمانے، سگریٹ، شراب پینے، سٹہ جوا کھیلنے، جسم گدوانے، ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے لیکن جرم کرنے کی صورت میں وہ مکمل قانونی سزا کا حق دار بھی قرار پاتا ہے جبکہ بچپن میں اسے اس معاملہ میں کافی چھوٹ حاصل تھی۔
میڈیکل بورڈ جوانی کی تشخیض کیسے کرتا ہے؟
1۔ جسمانی و نفسیاتی جانچ پڑتال
بلوغت کی علامات کی چھان بین کا عمل "مریض" سے سوال جواب کرکے شروع ہوتا ہے۔عنفوان شباب یا پیوبرٹی میں بچیاں تیزی سے قد نکالتی ہیں۔ ان کا سینہ ابھرتا ہے۔ کولہے چوڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ بالغ عورتوں جیسی دکھائی دیتی ہیں۔ جبکہ لڑکوں کے چہرے ہر ڈاڑھی مونچھیں نمودار ہوتی ہیں۔ ان کے تولیدی اعضا نشوونما پاتے ہیں۔ گردن کا کنٹھا ابل کر باہر آ جاتا ہے۔ آواز بھاری اور شانے چوڑے ہو جاتے ہیں۔ وقتا" فوقتا" مادہ منویہ کا اخراج ہوتا ہے۔
لڑکوں میں یہ ساری شرارت ٹیسٹوسٹیرون کرتا ہے جبکہ لڑکیوں میں یہ سب ایسٹروجن کی کارگزاری ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں ہارمون دونوں جنسوں میں موجود ہوتے ہیں بس مقدار مختلف ہوتی ہے۔ مخصوص عوارض اور ادویات کی آمد کو سست یا تیز کرسکتے ہیں۔
2۔ ہاتھ کا ایکسرے جس سے ہاتھ کی ہڈیوں کی پختگی کا سراغ لگایا جاسکے۔
3۔ دانتوں کا معائنہ
دانتوں بالخصوص ڈاڑھوں (مولر) کی موجودگی عمر کے تعین میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
4۔ ہنسلی کی ہڈی کا معائنہ
ہاتھ کے ڈھانچے کے مطالعے کے بعد اگر ضرورت ہو تو کالر بون یا ہنسلی کی ہڈی کی تفصیلی جانچ پڑتال عمر کی چغلی کھانے میں خاص شہرت رکھتی ہے۔ یہ جائزہ سی ٹی سکین کی باریک قاشوں سے کیا جاتا ہے لیکن کیونکہ اس میں انسانی جسم پر پڑنے والی تابکاری کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اسے صرف انتہائی مشکل اور پیچیدہ کیسز میں زیر غور لاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں پناہ گزینوں کی عمر کا طبی تعین
پچھلے دس سالوں میں جب عراق، شام، افغانستان اور لیبیا میں جاری خونیں تنازعات نے لاکھوں افراد کو دربدر کردیا اور بہت سے خانہ بدوش یورپی ممالک پہنچنے لگے تو یہ بحث چھڑ گئی کہ ان گنت بالغ افراد جعلی دستاویزات پر بچوں کا روپ دھارے پناہ حاصل کر رہے ہیں تاکہ تعلیمی اور ویلفیئر سہولیات سے استفادہ کر سکیں۔ چنانچہ سب سے پہلے جرمنی اور پھر دیگر ممالک نے عمر کے طبی تعین کے میڈیکل بورڈ بنائے۔ بدقسمتی سے برطانیہ کی کنزرویٹو حکومت نے بھی یہی متنازعہ پالیسی اپنائی۔ برطانوی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2021ء میں ختم ہونے والے ایک سال کے دوران اس طرح کے 1696 کیسز کو نمٹایا گیا جن میں بچہ ہونے کے دعویدار دو تہائی افراد کو بالغ پایا گیا۔ اس غرض سے بنائے گئے میڈیکل بورڈ میں لازمی ماہرین میں دانتوں کے ڈاکٹر، کلینکل ریڈیالوجسٹ، فورینسک بشریات، طب اطفال، نفسیات اور شماریات کے ماہر، سماجی بہبود کے اہلکار اور اس پورے عمل کی اخلاقی نگرانی کرنے والوں کو شامل کیا جاتا ہے۔
اس سارے عمل میں کئے جانے والے ایکسرے انسانی جان کے لئے خطرے کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ انہیں بار بار دہرانے سے مکمل گریز کرنا چاہیے۔
صوبہ سندھ میں عمر کے تعین کا طبی نظام
محکمہ صحت سندھ میں ایک اعلٰی تعلیمی عہدے پر فائز ذمہ دار شخصیت جو عمر کے تعین پر بننے والے متعدد طبی بورڈز میں شریک رہ چکے ہیں کے مطابق ان کا واسطہ انواع اقسام کے کیسز سے پڑتا ہے۔
پہلی قسم ان افراد کی ہے جن کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ، میڈیکل ریکارڈ یا تعلیمی اسناد وغیرہ موجود نہیں اور جن کو اب شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کے حصول کے لئے عمر کا تعین درکار ہے۔ بعض اوقات اس کی اہمیت اس لئے دوچند ہو جاتی ہے کیونکہ متعلقہ فرد کھیلوں کے مقابلے مثلا " انڈر 18 وغیرہ میں حصہ لے کر اپنے علاقے یا ملک کا نام روشن کرنے کا خواہشمند ہے۔
دوسری قسم ان سرکاری ملازمین کی ہے جواپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہاں ہیں لہذا اچانک انہیں یہ خیال آیا کہ ناخواندہ والدین نے عمر بڑھا کر لکھوائی تھی۔ ان میں متعدد کیسز جینوئن ہوتے ہیں لیکن بعض معاملات میں صاف جھوٹ بھی بولا جاتا ہے۔ ایک سرکاری کارپوریشن میں اہم مقام پر متمکن محترم جو درخواست لائے تھے اس کی رو سے جب انہوں نے نوکری اختیار کی تو وہ محض پانچ سال کے تھے۔
گھر سے جبرا" اغوا کی گئی یا اپنی مرضی سے چلی جانے والی بچیوں کا معاملہ بھی ہمارے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس میں بڑے ہی مشہور ہائی پروفائل کیسز ہیں۔ تبدیلی مذہب جیسے حساس مسائل ہیں۔ اسی طرح کبھی وہ ملزم لائے جاتے ہیں جس نے سرعام قتل کر دیا ہوتا ہے اور بااثر خاندان انہیں نوعمر ثابت کرکے قانون کے شکنجے سے باہر رکھنے کے متمنی ہیں۔
ان کیسز میں جب سیاسی، نسلی، طبقاتی، مذہبی اور فرقہ وارانہ عنصر شامل ہو جائے تو وہاں ہمیں سخت عمودی (ورٹیکل) دباؤ کے ساتھ ساتھ شدید افقی (ہوریزینٹل) دباؤ کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ عام لاعلمی اور سوشل میڈیا سے حاصل ہوئی کچی پکی معلومات نے اس افقی دباؤ کو نا قابل برداشت حد تک بڑھا دیا ہے۔ ہم کچھ بھی کرلیں ہڈیاں اور دانت سب راز فاش کر دیتے ہیں۔