حکومت سے نکالے جانے کے بعد تین ماہ میں عمران خان کا تیسرا بڑا سکینڈل سامنے آ گیا

07:25 PM, 29 Jun, 2022

نیا دور
سابق وزیراعظم عمران خان کا ایک اور توشہ خانہ سکینڈل سامنے آگیا ہے۔ خبریں ہیں کہ انہوں نے اپنی حکومت کی ترامیم کا فائدہ اٹھا کر 3 مزید گھڑیاں توشہ خانہ سے حاصل کیں اور ان کو کم قیمت کا بھی 20 فیصد قومی خزانے میں جمع کرایا تھا۔

یہ گھڑیاں مشرق وسطیٰ کے اعلیٰ معزز، خلیجی جزیرے کے شاہی خاندان کے فرد اور اسی خلیجی جزیرے کے ایک معزز شخص نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو تحفے میں دی تھیں۔ یہ گھڑیاں اس پچھلے توشہ خانہ سکینڈل سے مختلف ہیں جو دو ماہ قبل سامنے آیا تھا۔ پچھلے سکینڈل میں تحائف کی مالیت مبینہ طور پر 15 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی۔ سرکاری ریکارڈ میں ان قیمتی گھڑیوں کی فوٹوز کے ساتھ فروخت کی رسیدیں بھی موجود ہیں۔

دی نیوز کے صحافی قاسم عباسی کی رپورٹ کے مطابق عمران خان نے یہ گھڑیاں توشہ خانے سے اپنی جیب سے نہیں خریدیں بلکہ ان کو پہلے اوپن مارکیٹ میں بیچا گیا۔ بعد ازاں ان کی فروخت سے ملنے والی رقم میں سے صرف 20 فیصد قومی خزانے میں جمع کرایا۔ عمران خان نے یہ گھڑیاں توشہ خانے سے پندرہ کروڑ چالیس لاکھ میں اسلام آباد کے ڈیلر کو بیچ کر لگ بھگ 4 کروڑ روپے کمائے۔

ان میں سے ایک گھڑی خلیجی جزیرے سے تعلق رکھنے والے ایک معزز شخص کی جانب سے تحفے میں دی گئی۔ قیمتی گھڑی سابق وزیراعظم نے اٹھارہ لاکھ روپے میں فروخت کی۔ اس گھڑی کی سرکاری قیمت 15 لاکھ روپے بتائی گئی۔ سابق وزیراعظم نے دو لاکھ چورانوے ہزار روپے ادا کئے، اس سے مزید پندرہ لاکھ روپے کا فائدہ ہوا۔

خلیج کے شاہی خاندان کے اہم رکن کی طرف سے تحفے میں دی گئی ایک اور قیمتی گھڑی عمران خان نے باون لاکھ روپے میں فروخت کی۔ توشہ خانہ کے قواعد کے مطابق اس مہنگے تحفے کا تخمینہ سرکاری جائزہ کاروں نے 38 لاکھ روپے لگایا۔ عمران خان نے سات لاکھ 54 ہزار روپے سرکاری خزانے میں جمع کرایا۔ حالانکہ گھڑی بازار میں 52 لاکھ روپے میں بیچی گئی تھی۔ اس طرح اس گھڑی کو بیچ کر تقریباً 45 لاکھ روپے کا منافع کمایا گیا۔ یہ گھڑی انہیں تحفے میں دیے جانے کے دو ماہ بعد نومبر 2018 میں فروخت کی گئی۔

مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیت کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان تحفے میں دی گئی گھڑی کی سرکاری قیمت 10 کروڑ 10 لاکھ روپے بتائی گئی۔

سابق وزیر اعظم نے اسے تقریباً آدھی قیمت پر پانچ کروڑ 10 لاکھ روپے میں فروخت کرنے کا اعلان کیا اور قیمت کے بیس فیصد کے طور پر 2 کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرائے۔ اس طرح صرف اس ایک گھڑی کی فروخت سے مجموعی طور پر 3 کروڑ 10 لاکھ روپے کا منافع کمایا گیا۔ یہ گھڑی 22 جنوری 2019 کو فروخت ہوئی۔

اس سے قبل بھی عمران خان کا توشہ خانہ سکینڈل اپریل میں اس وقت سامنے آیا تھا جب وزیر اعظم شہباز شریف نے صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں یہ انکشاف کیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے اشیا کم قیمت پر خرید کر بازار میں بیچی ہیں اور وہ یہ بات شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ خبر کے مطابق عمران خان نے مختلف تحائف مارکیٹ میں بیچے تھے اور ان سے ملنے والا کل منافع تقریباً 15 کروڑ 40 لاکھ بنتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک گھڑی سعودی ولی عہد شاہ محمد بن سلمان نے عمران خان کو تحفے میں دی تھی۔ سابق وزیر اطلاعات اور عمران خان کے قریبی ساتھی فواد چودھری نے ڈھکے چھپے لفظوں میں شہباز شریف کے الزام کی تصدیق بھی کی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر عمران خان نے گھڑی خریدی تھی تو یہ ان کی ملکیت تھی اور وہ اس کو بیچنے کا حق رکھتے تھے۔ چند روز بعد عمران خان نے خود بھی لاہور جلسے میں تصدیق کی تھی کہ انہوں نے تحائف بیچے لیکن دعویٰ کیا تھا کہ یہ تحائف بیچ کر انہوں نے اپنے گھر کی سڑک ٹھیک کروائی تھی، اور اس پر سرکاری خزانے سے رقم خرچ نہیں کی تھی۔ تاہم، مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کے سابق میئر شیخ انصر عزیز نے ان کے اس دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس سڑک کا عمران خان ذکر کر رہے ہیں وہ ان کی نجی سڑک تھی جو مین روڈ سے صرف ان کے گھر کو ہی جاتی تھی اور اس سڑک کی مرمت سی ڈی اے نے کی تھی لیکن عمران خان نے بھی 30 لاکھ روپے کا ایک پے آرڈر ضرور دیا تھا۔ البتہ اس سڑک کی تعمیر پر 30 لاکھ سے کہیں زیادہ خرچ آیا تھا۔ یاد رہے کہ عمران خان کے توشہ خانہ سے خرید کر بازار میں بیچے گئے تحائف جن کی تفصیلات اب تک سامنے آ چکی ہے، ان کی کل قیمت قریب 19 کروڑ روپے بنتی ہے۔

عمران خان ابھی تک اس الزام کا جواب دینے سے بھی قاصر رہے ہیں کہ القادر یونیورسٹی کے نام پر ملنے والی 400 کنال سے زائد زمین جس ٹرسٹ کے نام پر ہے، یہ اس کے ایک ٹرسٹی ہیں، ان کی اہلیہ بھی اس میں ٹرسٹی ہیں اور ان کی سہیلی فرح 'گوگی' بھی چار ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں۔ یہ زمین بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے اس ٹرسٹ کو تحفے میں دی تھی۔ عمران خان پر الزام ہے کہ یہ زمین انہیں ملک ریاض نے اس لئے دی تھی کہ جب یہ برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے منی لانڈرنگ میں پکڑے جانے کے بعد پلی بارگین کر کے 40 ارب روپے انہیں دینے کو تیار ہو گئے تھے تو یہ رقم برطانوی حکومت نے پاکستان کو واپس کی تھی لیکن یہ پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے سپریم کورٹ کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دی گئی تھی اور ملک ریاض کے مطابق انہیں بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں سپریم کورٹ سے جو جرمانہ ہوا تھا، یہ محض اس کی ایک قسط تھی۔ اس دعوے کی حکومت اور سپریم کورٹ کی جانب سے کبھی تردید نہیں کی گئی۔
مزیدخبریں