پاکستان کی نازک مالیاتی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے سال پاکستان کی قرض پر سود کی ادائیگی مجموعی طور پر 9700 ارب روپے ہے، جبکہ ہماری کل آمدنی 9300 ارب ہے۔ یہ خطرناک صورت حال ہمارے بحران کی سنگینی کو واضح کرتی ہے۔ قرض کی ادائیگی تو ایک طرف، ہم قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے پورے نہیں پڑ رہے اور جدوجہد کر رہے ہیں۔ قرضوں کا عفریت ہماری معیشت کا گلا گھونٹنے پر تلا ہے اور ہمارے مستقبل کے امکانات پر انتہائی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
اشرافیہ کو حاصل مراعات، غیر ضروری اخراجات اور فضول خرچی کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کمیٹی کی سفارشات کو بڑی حد تک نظرانداز کر دیا گیا ہے، جس کے ذریعے 1000 ارب روپے کی بچت ہو سکتی تھی۔ اس رقم کو عام آدمی کی تکالیف کو دور کرنے، اہم عوامی خدمات میں سرمایہ کاری کرنے، یا قرض کا ایک حصہ ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس کے بجائے حکومت نے ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے عوام پر مزید ٹیکسز کا بوجھ لادنے میں ہی عافیت جانی ہے۔
موجودہ بجٹ 2024-25 مالیاتی اقدامات کا ایک ملا جلا امتزاج پیش کرتا ہے، جس میں قابل تعریف اور تنقیدی دونوں عناصر شامل ہیں۔ مثبت پہلوؤں میں نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی پرائیویٹائزیشن ہے، فیڈرل بورڈ اف ریونیو کی اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلائزیشن ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے لیے اقدامات ہیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں اضافے کا اعلان ہے۔ کم سے کم اجرت کو بڑھا کر 37,000 کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ ان اقدامات سے ہزاروں خاندان مستفید ہوں گے۔ یہ اقدامات گو کہ مہنگائی کے اس دور میں مکمل خود کفیل ہونے کی ضمانت تو نہیں ہیں مگر محنت کش طبقے کے لیے امید کی ایک کرن ضرور ہیں۔ اب حکومت وقت کو چاہیے کہ کم سے کم اجرت کے اس اعلان کے مطابق سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے مزدوروں کو یہ اجرت یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرے۔
توانائی کے شعبے کی ترقی کے لیے 253 ارب روپے مختص کرنا ملک کے مستقبل میں اہم سرمایہ کاری ہے۔ تمام صوبوں کے ساتھ 'قومی مالیاتی ایوارڈ' کا اجرا بھی بین الصوبائی مالیاتی ہم آہنگی کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔ پی ایس ڈی پی کی مد میں 1500 ارب روپے کا اعلان بھی احسن ہے تاہم کئی شعبوں میں بجٹ کافی کم ہے۔ خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔
تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ، پہلے سے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ٹیکس دہندگان کے لیے ٹیکس کی ذمہ داری میں 75 ارب کا اضافہ خاص طور پر ناقابلِ برداشت بوجھ ہے۔ اور یہ عین اس وقت کیا جا رہا ہے جبکہ حکومتی اخراجات اور اشرافیہ طبقے کی مراعات میں کمی کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ اشرافیہ کی مراعات میں کمی کا اعلان نہ کرنا بھی مالیاتی استحکام سے مزید دوری کا باعث بنے گا۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
مزید براں، فاٹا اور پاٹا کے علاقے کے لیے جی ایس ٹی کی چھوٹ کی واپسی، اشیائے خور و نوش، چمڑے اور ٹیکسٹائل مصنوعات کا کاروبار کرنے والے خوردہ فروشوں کے لیے سیلز ٹیکس میں اضافہ کمزور طبقات کے لیے مہنگائی اور معاشی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومت کو اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنی چاہیے اور مزید جامع اور مساوی مالیاتی فریم ورک کے لیے کام کرنا چاہیے۔
پاکستان قرضوں کے جال میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ اس شیطانی چکر سے بچنے کا کوئی واضح روڈ میپ نہیں ہے۔ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضوں کے فنڈز پر ہمارے انحصار نے انحصار کی ثقافت کو جنم دیا ہے جس سے قرض کی بیڑیوں سے آزاد ہونا مشکل ہو گیا ہے۔ قرضوں کے اس جال کے نتائج معاشی ترقی کو روکنے سے لے کر ہماری خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے تک بہت دور رس ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس دلدل سے خود کو نکالنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کریں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
اس صورت حال کو سدھارنے کے لیے ہمیں کثیر الجہتی نقطہ نظر کو اپنانا چاہیے جو آمدنی میں اضافہ اور اخراجات کو روکنے پر مرکوز ہو۔ ذیل میں چند اہم تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جو اس جانب پیش رفت میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہیں؛
*حکومتی اخراجات اور اشرافیہ کی مراعات میں کمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کمیٹی کی سفارشات کو فی الفور نافذ کیا جائے۔
*تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے زیادہ پروگریسو ٹیکس نظام متعارف کرایا جائے۔
*مالیاتی شفافیت کو بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ٹیکس وصولی کے نظام کوڈیجیٹلائزڈ اور کرپشن فری بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
*سماجی شعبوں، جیسے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں سرمایہ کاری میں اضافہ ناگزیر ہے۔
*مزید جامع اور منصفانہ انداز اپنا کر حکومت پائیدار اقتصادی ترقی اور مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے۔
*اتحادیوں کو جامع اصلاحات میں اور قوم کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ملانا چاہیے اور اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کے لیے روٹھنے منانے کی سیاست کو ترک کرنا چاہیے۔
*ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ٹیکس کے نظام میں کرپشن کو ختم کرنے اور برآمدات کو ترغیب دینے جیسے اقدامات سے ہماری آمدنی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
*اس کے ساتھ ساتھ، کفایت شعاری کو من حیث القوم اپنانا اور ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو فضول خرچی کو ختم کریں۔
ان اقدامات کے امتزاج کو اپنانے سے ہم اپنے مالیاتی مستقبل کو مستحکم کرنے اور قرضوں کے چنگل سے نکلنے کی امید کر سکتے ہیں۔