سینکڑوں بیمار ہو رہے ہیں۔ ہسپتال پہ ہسپتال بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم خود شکار ہو گئے۔ اپنے کمرہ تک بند، جس بیماری سے لڑنے کیلئے ایک ایک منٹ قیمتی ہے وہاں کئی دن لگا دیے گئے۔ جھوٹی تسلیاں دینے اور مخالفین کیخلاف مسلسل محاذ گرم کیے رکھنے میں۔ چنانچہ وقت ضائع ہوتا رہا۔ ماسک کی خریداری نہ ہو سکی۔ وینٹیلیٹرز کم پڑتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹرز ہیں پر حفاظتی سازوسامان نہیں۔ نرسز ہیں پر کرونا سے متعلق تربیت ہے نہ تعلیم۔ پاکستان کی داستان تو پھر کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ ہمارے پاس بھی ضروری سازوسامان نہیں اور خدانخواستہ مسائل بڑھ گئے تو خرچ کرنے کو خاص پیسہ بھی نہیں۔ اس وائرس کو آسان مت لیجیے، یہ دشمن ہے۔ بڑی کڑاکے دار نوعیت کا۔ اپنے ہی مزاج ہیں اس کے۔ ٹرمپ نے چند لمحے دیر کی اور اپنا شہر (نیویارک) ہی لٹا بیٹھا۔ ٹرمپ کی سوچ میں آیا کہ سب ٹھیک ہے کا راگ الاپوں تو ساکھ پچ جائے گی۔ تو اس دشمن نے امریکہ کی سب سے امیر ریاست (کیلیفورنیا) کو ہی ہدف بنا ڈالا۔ عالم یہ ہے کہ ایک دن صورتحال بہتر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو اگلے دس دن بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نیویارک کی سٹاک ایکسچینج ہو۔ وال سٹریٹ کے ٹریلینز ڈالر کی تجارت۔ یا پھر واشنگٹن میں عالمی اختیارات کا ارتکاز۔ سب بے معنی ہوچکے ہیں۔ ہر طرف کرونا وائرس ہے۔ ذہنوں میں، سوچوں پہ، دھڑکنوں پر، بورس جانسن نے بھی تادیبی حربے آزمائے۔ بات یہاں تک نہیں رکی۔ بلکہ مذاق بھی اڑایا کرونا وائرس کا۔ اس قدر ہلکا لیا اس دشمن کو پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ خود وزیراعظم بیمار، گھر میں خود ساختہ تنہائی۔ وزیر صحت بیمار، گھر میں خود ساختہ تنہائی۔ رائل فیملی کا شہزادہ بیمار، گھر میں بند۔ 3 مہینے پہلے شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس طرح کا موذی وائرس موجود ہے۔ پر اس محدود عرصے میں یہ وائرس دنیا کے تقریبا ہر ملک میں پھیل چکا ہے۔
اب جبکہ 6 لاکھ سے بھی زیادہ افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو یہ وقت ہے اپنی سمت کی درستگی کا، کچھ لوگوں کو ہم جانتے ہیں، بہت ساروں کا ہمیں علم نہیں۔ ایسا موذی وائرس جس نے تمام چھوٹی سے چھوٹی، بڑی سے بڑی معیشتوں کو بٹھا دیا۔ صحت کے نظام توڑ پھوڑ دیے، ہسپتالوں کو کھچا کھچ بھر دیا۔ عوام الناس کے اٹھنے بیٹھنے اور ملنے ملانے کی جگہیں خالی کر دیں۔ لوگوں کو لوگوں سے جدا کر دیا۔ حتی کہ لوگوں کو ان کے روزگار اور کمانے تک کی جگہوں سے دور کر دیا۔
پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ شرح میں ایسی ہی تیزی رہی تو وہ دن زیادہ دور نظر نہیں جب پاکستان میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی جاننے والا اس مرض کا شکار ہو گا۔ یقین جانیں جیسے دونوں جنگ عظیم میں شامل قوموں کی نفسیات پر جنگ کی تباہ کاریوں کے اثرات آج بھی آویزاں ہیں، ایسے ہی کرونا وائرس سے پھیلنے والے اثرات اور مسائل ہماری نفسیات پر کئی دہائیوں تک چھائے رہیں گے۔ پوری دنیا میں کرونا وائرس نے اپنے پھیلاؤ کے لئے ایک مختلف روش ہی اپنائی ہے۔
پاکستان میں بھی سلسلہ کچھ ایسے ہی ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس کے ہاتھوں متاثر ہونے والے پہلے دو مریضوں کی تشخیص 26 فروری کو ہوئی۔ یوں بائیس کروڑ کے ملک میں کرونا کے دو مریض تھے۔ قریب بیس دن بعد کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی شرح بڑھ کر یہاں تک پہنچی کہ ہر دس لاکھ میں ایک افراد اس وائرس سے متاثرہ نکلا۔ اب جب کہ یہ تحریر آپ پڑھ رہے ہیں، 1400 سے زیادہ متاثرہ مریضوں کے ساتھ پاکستان میں ہر دس لاکھ میں 6 افراد کرونا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ صوبوں کی بنیاد پر اس وائرس کے حملہ کو دیکھیں تو پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہوا لگ رہا ہے۔ 26 فروری سے لیکر 27 مارچ تک سندھ میں سب سے زیادہ کرونا وائرس کے مریض رہے۔ لیکن جس طرح سے قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں اور میڈیکل ایکسپرٹ اپنی آراء پیش کر رہے تھے اس سے یہی نتیجہ نکالا جارہا تھا کہ پنجاب کا دوسرے نمبر پہ رہنا غیر فطری ہے۔ اور 28 مارچ کو ایسا ہی ہوا جب پنجاب قریب 500 مریضوں کے ساتھ سندھ کو کہیں پیچھے چھوڑ گیا۔ پنجاب کا متاثرہ صوبوں میں نمبر 1 آنا ہر لحاظ سے متوقع تھا۔ صوبہ میں صحت عامہ کے مسائل کی حالت تو ابتر ہے ہی لیکن انتظامی طور پر پنجاب بے پناہ مسائل کا شکار ہے۔ صوبہ میں موجود سنگین صورتحال کا اندازہ تو آپ کو اسی وقت ہو جاتا ہے جب آپ صوبہ کے وزیراعلی پر نگاہ دوڑتے ہیں۔
دعویٰ وسیم اکرم پلس ہونے کا ہے۔ پر عالم یہ ہے کہ عثمان بزدار صاحب سے ڈھنگ کی ایک پریس کانفرنس نہیں ہوسکتی۔ عوام کے سامنے آ کے امید اور حوصلہ کا ایک پیغام تک دینے کی صلاحیت نہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آپ کی مایوسی کا منبع وہاں ہے جہاں سے امید کے چشمے بہنے چاہیں تھے۔ جہاں محور ہونا چاہئے تھا ایک مضبوط لیڈرشپ کا وہیں سے دراصل ابتداء ہوتی ہے صوبہ کے انتظام میں انتشار اور توڑ پھوڑ کی۔ مانیں یا نہ مانیں اس صوبہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس صوبہ کے مرکزی شہر لاہور سے ایک کرونا وائرس کی مریضہ جناح ہسپتال سے نکل جاتی ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ لاہور کے ہی سب سے بڑے سرکاری ہسپتال، میو ہسپتال، میں کرونا وائرس کے مریض کو رسیوں سے باندھ کر تڑپتا ہوا چھوڑ دیا جاتا ہے اور اسی کسمپرسی کی حالت میں مریض اپنی جان دے دیتا ہے۔ نجانے یہ میڈیکل سٹاف کی بے حسی ہے یا انتظامیہ کی نااہلی پر اس صوبہ میں انسانیت دم توڑ چکی ہے۔
یہ تو ہے لاہور کی داستان جہاں عثمان بزدار صاحب صبح و شام موجود ہیں۔ آپ کو جان کر حیرانگی ہو، پنجاب میں شاید پہلے نمبر نہ سہی پر لاہور کے برابر ہی دوسرے جس ضلع میں سب سے بدترین صورتحال ہے وہ کوئی اور نہیں عثمان بزدار صاحب کا اپنا شہر ڈیرہ غازی خان ہے۔ اگر تشخیص ہونے والے مریضوں کے حساب سے دیکھیں تو فی الوقت ڈیرہ غازی خان میں سب سے زیادہ کرونا وائرس کے مریض ہیں۔ یقینا اس کی بنیادی وجہ ایران سے واپس آنے والے زائرین ہی ہیں۔ پر وائرس کا پھیلاؤ مقامی سطح پر بھی شروع ہو چکا ہے۔ قرنطینہ میں جس طرح کے تشویشناک حالات ہیں وہ تو آپ سارے جانتے ہیں۔ اتنے حساس حالات میں بھی نااہلی دیکھیے کہ میڈیکل سٹاف کے پاس مکمل حفاظتی سازو سامان نہیں۔ ڈیوٹی پر مامور دو ڈاکٹرز میں کرونا وائرس تشخیص ہوئی ہے۔ اس کے بعد تو ایک ایمرجنسی کی حالت ہونی چاہئے تھی۔ تمام ڈاکٹرز اور نرسز کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے تھی۔ لیکن 'چاہیے' تو بس ایک حسرت ہی بنی رہی کیونکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جو کچھ لاہور اور ڈیرہ غازی خان میں ہو رہا ہے یہ تو ایک جھلک ہے کہ اگر یہ عالم ہے ان شہروں کا جہاں وزیراعلی بیٹھا ہے اور جہاں اس کا اپنا گھر ہے تو تصور کریں کیا گزر رہی ہو گی باقی علاقوں میں۔
سو یہ تسلیم کر لیں کہ وائرس آگے نکل چکا ہے۔ ہمارے پاس موقع تھا تیاری کرنے کا۔ وائرس کو ابتدائی مراحل میں کنٹرول کرنے کا۔ ہم وہ موقع کھو چکے ہیں۔ وائرس کافی آگے ہے اور آنے والے کئی دنوں تک، شاید ہفتوں تک، آگے ہی رہے گا۔ ہماری صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت اب جتنے اقدامات کر رہی ہوں گی وہ ماسوائے اس وائرس کا پیچھا کرنے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔
تو اب تک کا سب سے بڑا سوال یہ ہے: کیا ہم موثر طریقہ سے اس کا پیچھا کر پائیں گے؟
جب ہمیں حقائق کو گلے لگانا چاہئے تھا ہم مفروضوں میں پڑنے کو بھی تیار نہ تھے۔ ٹھہریں! مفروضے؟ مفروضے اور نظرئیے تو ہمارے ملک میں خام خیالی باتیں ہیں جن کا مقصد طنز ہوتا ہے یا پھر سازشی تھیوریز بننا۔ سائنسی ادراک اور شعور پر پرکھنے سے تو ہم رہے۔ ورنہ طبی ماہرین سے لیکر میڈیا تک بار بار خطرہ کی سنجیدگی کی طرف اشارہ کیا جا رہا تھا۔ خیر! ہم جس موذی وبا سے بچنے کی التجاء کر رہے تھے اب وہ آچکی ہے۔ اب وہ وقت گزر گیا جب ہم سوچتے تھے کہ 'نجانے کیا ہوگا'۔ اب جو وقت ہم پر آ چکا ہے اس میں 'کرنا کیا ہے' یہ ہماری ترجیح ہونی چاہئے۔
چنانچہ بورس جانسن کے برطانیہ سے ہماری عوام اور میڈیا کیلئے سبق ہے:
اگر کرونا کیخلاف جنگ جیتنی ہے تو اپنے عوامی نمائندوں سے سوالات در سوالات پوچھو۔ مشکل سے مشکل تر پوچھو۔ ان کی طرف سے دی گئی ہر تسلی کو اٹھا کے پھینک دو۔ یہ عجیب طرز کی جنگ ہے۔ چین سے لیکر اٹلی، جرمنی اور پھر امریکہ، وقت کا تعین دشمن نے خود کیا ہے۔ اپنی مرضی سے۔ پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ کراچی کا اس نے ابھی رخ کیا ہے۔ لاہور میں اس نے اپنی آماجگاہیں قائم کرنا شروع کر دیں ہیں۔ بچنے والا اسلام آباد بھی نہیں۔ اور مریض تو ملک کے دور دراز دیہاتوں سے بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کرونا سے جیتنا ہے تو اپنے حکمرانوں کے دعووں پر کسی صورت یقین مت کریں۔ حکمران تمہیں گلاس کا بھرا ہوا حصہ بڑھا چڑھا کر دکھانے کی کوشش کریں گے۔ پر طرز دشمن یکسر مختلف ہے۔
دانا وہ ہے جو گلاس کے خالی حصہ کو ماپنے کی کوشش کرے گا کیوں کہ گلاس کا جو حصہ خالی ہے وہ تو تم نے کرونا کو وقف کردیا۔ اور جو بھرا ہے یہ وائرس وہاں سے بھی اپنا حتی الا مکان زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرے گا۔ ابھی بھی وقت ہے۔ ذہنوں میں بٹھا لیں یہ بات۔ اس جنگ میں سب سے بڑا محسن وہ ہے جو مقتدر حلقوں (ایم پی اے، ایم این اے سے لیکر وزراء و وزیر اعظم تک) کو مسلسل جھنجھوڑے رکھے۔ سوالات ہیں جس کے پاس۔ نہ ختم ہونے والے۔ اور خطرناک قدم اٹھا رہا ہے ہر وہ شہری جو مقتدر حلقوں کی طرف سی کہی گئی باتوں پر، تسلیوں پر، وعدوں پر، ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔