تاہم اب اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ پندرہ ماہ گزرچکے ہیں تاہم تا حال نہ ہی وہ اربوں کی مالیت کا ہائیڈ پارک کا مینشن خالی کیا گیا ہے اور نہ ہی ایک سو چالیس ملین پونڈ واپس کیئے گئے ہیں،
ایکسیکس نیوز اینڈ انویسٹیگیشن کے مطابق اس تاخیر نے برطانیہ کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کی اس ڈیل پر بڑے سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ بنگلہ کی سات منزلیں ہیں اور یہ گریڈ ٹو کی عمارت ہے۔ جسے ملا کر کل 190 ملین پونڈ کی رقم تھی جو کہ ریاست پاکستان کو جانا تھی۔
تاہم جریدے کے مطابق اس وقت تک ملک ریاض کی جانب سے جو 140 ملین پونڈ سرنڈر کرنے کا وعدہ ہوا تھا انہوں نے وہ رقم سپریم کورٹ کو جرمانہ ادا کرنے میں استعمال میں لائے ہیں۔
یاد رہے کہ جون 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو پانچ ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی انھیں خاندان کی ذاتی املاک کی تفصیلات بھی جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
کیس کی تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں بحریہ ٹاؤن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اب بھی وصولیاں کررہا ہے، ایک ایک پائی واپس کرنا پڑے گی۔
بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے عدالت کے روبرو کہا کہ تخت پڑی کا جو مقدمہ چل رہا ہے نیب اسے کلیئر قراردے چکا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر ریمارکس دیے کہ اس وقت کی نیب کلیئرنس پر نہ جائیں۔ ملک صاحب! آپ طاقتور ہیں آپ کے خلاف کوئی سر اٹھا نہیں سکتا۔
ملک ریاض نے کہا کہ جس دن عدالت عظمیٰ نے بلایا میں حاضر ہوا ہوں اور عدالت کے ہر حکم پر عمل کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے استدعا کی کہ ایسا فیصلہ نہ دیں جس سے ملازمین متاثر ہوں۔
بحریہ ٹاؤن کے مالک نے کہا کہ جہاں کلاشنکوف تھی ہم نے وہاں تعمیراتی منصوبے بنائے، دنیا کی تیسری بڑی مسجد بنائی۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ملک میں لوڈشیڈنگ ہے مگر بحریہ ٹاؤن میں 24 گھنٹے بجلی آتی ہے۔
ملک ریاض نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو بحریہ ٹاؤن کے دورے کی دعوت بھی دی۔