معروف انگریزی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو حکمران جماعت کے اہم اتحادی کی حمایت کھو دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ چوہدریوں کو غیر پر کشش پیشکش کی گئی تھی جس کی وجہ سے وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرنے کی کوشش میں اتحادیوں نے اپوزیشن کی حمایت نہیں کی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایک سینیئر رہنما جو مسلم لیگ(ق) سے ہونے والے بات چیت کا حصہ تھے، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما نواز شریف اور ان کی بیٹی پر مسلم لیگ (ق) کے مطالبات ماننے میں لچک نہ دکھانے کا الزام لگا رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت (موجودہ اسمبلیوں کی بقیہ مدت تک کے لیے) وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ اور آئندہ انتخابات میں 20 نشستیں حاصل کرنا چاہتی تھی۔
رہنما نے کہا کہ ق لیگ کے مطالبات پر پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری راضی ہوگئے تھے لیکن نواز شریف اور مریم نواز اس پر تیار نہ تھے۔
انہوں نے بتایا کہ باپ بیٹی نے پیغام پہنچایا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد پرویز الٰہی کو صرف 3 سے 5 ماہ کی عبوری مدت کے لیے پنجاب کا اعلیٰ عہدہ دیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے درمیان آئندہ انتخابات پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی نہیں ہوسکی۔
آصف زرداری شریفوں کی جانب سے چوہدری کو مزید پرکشش پیشکش نہ کرنے پر پریشان تھے جس کا نتیجہ بالآخر مسلم لیگ (ق) کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کی حمایت کے اعلان کی صورت میں نکلا جنہوں نے اتحادیوں کو وہ دے دیا جو وہ چاہتے تھے۔
ایک اور اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی جارحانہ کوششوں کے باوجود شریفوں اور چوہدریوں کے درمیان اعتماد کے خلا کو پر نہیں کیا جاسکا۔
مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت پرویز الٰہی کی ’سیاسی چالبازیوں‘ کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکار تھی۔
انہوں نے بتایا کہ قیادت میں یہ تشویش بڑھ رہی تھی کہ اگر پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دے دیا گیا تو وہ مسلم لیگ (ن) کی قیمت پر اپنی جماعت کو مضبوط کریں گے۔
دوسری جانب یوسف رضا گیلانی نے ڈان کو بتایا کہ مشترکہ اپوزیشن چوہدریوں کے حوالے سے مایوس نہیں ہوئی اور ہم اب بھی ان کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وزیراعظم کو گھر بھیجنے کےلیے درکار تعداد موجود ہے اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اتحادی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کریں، ہم پر امید ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کرلے گی۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات اعظمیٰ بخاری کا بھی یہی کہنا تھا کہ اپوزیشن اب بھی چوہدریوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ وزیراعظم کی حمایت کے اپنے فیصلے کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
دریں اثنا چوہدریوں میں بھی اتحاد کا حصہ رہنے کے فیصلے کے حوالے سے دراڑ پائی جارہی ہے کیوں چوہدری شجاعت مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں جبکہ پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی وجہ سے پی ٹی آئی کو بہتر آپشن سمجھتے ہیں۔