جہاں ایم کیوایم کے چند ممبران اپوزیشن کا ساتھ دینے کے حق میں ہیں تاہم پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا جھکاؤ حکومت کی جانب ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مسلسل رابطوں اور اجلاس کے بعد بھی حتمی فیصلہ نہ کرسکی اور پارٹی کی رائے اس معاملے پر تقسیم ہوچکی ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ ق کے فیصلے کے بعد ایم کیو ایم اپنے فوری فیصلے میں کنفیوژن کا شکار ہوگئی ہے۔
میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے چلنے والی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے علاوہ بعض منتخب نمائندے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے حق میں ہیں جب کہ ایم کیو ایم کی اعلی قیادت کا جھکاؤ حکومت کی طرف ہے جس کی وجہ سے پارٹی کو اس معاملے پر حتمی فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے یہ اطلاعات بھی آئی تھی کہ ایم کیو ایم اور ن لیگی کی مشاورت مکمل ہوگئی ہے جس کے بعد حکومتی اتحادی جماعت کے تمام مطالبات مان لیے گئے ، مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات کو صوبے اور وفاق میں جائز قرار دیتے ہوئے ان مطالبات کو تسلیم کرلیا اور دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ جو بھی معاملات طے ہوں گے انہیں تحریری شکل دی جائے گی۔
بتایا گیا ہے کہ ن لیگ کا وفد تحریک عدم اعتماد پر حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک بار ایم کیو ایم کے پاس گیا ، پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی ملاقات میں دونوں سیاسی جماعتوں نے موجودہ سیاسی صورتحال پر مشاورت کی ، اس ملاقات میں ن لیگ کی جانب سے احسن اقبال ، رانا ثنا اللہ ، ایاز صادق ، سعد رفیق اور ایم کیو ایم کی جانب سے خالد مقبول صدیقی ،عامر خان ، وسیم اختر ، خواجہ اظہار اور امین الحق شریک ہوئے۔
ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا گیا ہے کہ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم نے اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے ساتھ تمام معاملات پر مشاورت مکمل کرلی ہے ، اس دوران ن لیگ نے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات کو صوبے اور وفاق میں جائز قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرادی