چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
گزشتہ روز عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی ایک گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کریں آج سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ سے کوئی سوالات نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ کمالیہ میں وزیر اعظم کی تقریر کا حوالا دیا گیا تو میں نے وزیراعظم سے اس تقریر کے بارے میں بات کی، میں وزیراعظم کا بیان عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ کمالیہ تقریر میں 1997 سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں بات کی گئی تھی، عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور یقین ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہاؤس حملے میں ملوث ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں، متعلقہ مجسٹریٹ سے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیے ہیں، پی ٹی آئی کے دونوں اراکین اسمبلی سمیت تمام ملزمان گرفتار کیے جائیں گے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سندھ ہاؤس حملہ کیس کی رپورٹ کل دوبارہ جمع کروائی جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن کی ناہلی پانچ سال یا تاحیات ہوسکتی ہے، منحرف رکن کی نااہلی باقی رہ جانے والے اسمبلی مدت تک بھی ہو سکتی ہے، منحرف رکن نیوٹرل ہو کر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے تو اس کی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر نااہلی تاحیات ہے، مس کنڈکٹ پر 5 سال کی نااہلی ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر کے نااہلی کے مدعت کے تعین کی وجوہات بتائے۔
اٹارنی جنرل نے منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ پہلا یہ کہ منحرف رکن کو کوئی نتائج نہ بھگتنا پڑیں، دوسرا منحرف رکن باقی رہ جانے والی اسمبلی مدت تک نا اہل ہوسکتا ہے، تیسرا منحرف رکن 5 سال کے لیے نااہل ہوسکتا ہے اور چوتھا منحرف رکن تاحیات نا اہل ہوسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف رکن کو آئندہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے، چوری کو اچھائی نہیں قرار دیا جا سکتا، پارٹی سے انحراف کو معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں اسمبلی کی مدت کا ذکر ہے اراکین کا نہیں، اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اراکین کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، اراکین اسمبلی کی رکنیت کی مدت کا تعین اسمبلی سے جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک کی نااہلی سے آرٹیکل 63 اے کا مقصد پورا نہیں ہوگا بلکہ اس کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہو گا، سوال صرف یہ ہے کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں، چور چور ہوتا ہے کسی کو اچھا چور نہیں کہا جاسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہاختلاف تو ججز فیصلوں میں بھی کرتے ہیں، اختلاف رائے کا مطلب انحراف کرنا نہیں ہوتا، صرف 4 مواقع پر پارٹی فیصلے سے انحراف سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، رضا ربانی نے فوجی عدالتوں کے معاملے پر اختلاف رائے کیا لیکن انحراف نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے، نااہلی کا نہیں، جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہو گئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن دے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اختلاف کرنے اور منحرف ہونے میں کیا فرق ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اختلاف تو بہت خوبصورت چیز ہے، منی بل میں رکن اختلاف کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ منحرف رکن کےخلاف کارروائی کے لیے ڈیکلریشن ضروری ہے، کیا یہ جانچہ نہیں جائے گا کہ رکن کے خلاف ڈکلئیریشن کیا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمے میں اٹھائے گئے سوال بڑی فکری بحث ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمنٹ کرسکتا ہے، پارلیمنٹ کے قانون بنانے تک منحرف رکن کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر تاحیات نا اہلی کا اصول سپریم کورٹ نے طے کیا ہے، منحرف رکن پر تاحیات نااہلی کا فیصلہ دکھا دیں، آپ منحرف رکن پر بہت سنگین سزا کا تقاضا کر رہے ہیں، تاحیات نا اہلی کے تقاضے الگ ہیں منحرف رکن پر تاحیات نا اہلی جیسی سنگین اور سخت اصول کا اطلاق کیسے کرتے ہیں، 5سال تک نااہل قرار پانے والے پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق کیسے کر دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ ڈیکلریشن جاری کرتا ہے، الیکشن کمیشن کے ذریعے تعین کرنے کا فورم کیوں رکھا گیا ہے، بری کرنا زیادہ بڑا جرم نہیں لیکن بے گناہ کو باقیوں کے ساتھ بلی چڑھا دینا زیادہ سنگین جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ سارے چور نہیں ہوں گے، ایماندار بھی ہوں گے، ڈی سیٹ کرنا کیا بڑی سزا نہیں ہے، بلوچستان میں لوگ انتخابات کے دوران قتل ہوتے ہیں، ایماندار شخص کو آئین نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا آئینی حق ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ایماندار شخص پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کی بنیاد پر تاحیات نا اہلی کی تلوار لٹکانا چاہتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین بنانے والوں کے لیے ڈی سیٹ ہونا بہت بڑی بات ہے، چوری ثابت کرنے کے لیےطریقہ کار کو اپنانا پڑے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر کونسا ٹرائل ہوتا ہے، منحرف رکن کے پاس الیکشن کمیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک فورمز موجود ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے اراکین منحرف ہو جاتے ہیں، اراکین منحرف کیوں ہوتے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ فورم اس سوال کے جواب کے لیے نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ جج صاحب کو پہلے بات مکمل کرنے دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ حکومت ہم سے یہ کام کیوں کرانا چاہتی ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی کے تعین کے لیے ہمیں کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں، آرٹیکل 63 پی میں وقتی نااہلی کا ذکر ہے، جھوٹا بیان حلفی دینے پر تاحیات نااہلی ہوتی ہے۔، پارلیمنٹ جھوٹے بیان حلفی پر 5 سال نااہلی کا قانون بنائے تو کالعدم ہو گا؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق اور نتائج پر الگ الگ عدالتی فیصلے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ شوکاز نوٹس دے کر رکن اسمبلی کا مؤقف لینے کا پابند ہے، 100 گنہگار چھوڑنا برا نہیں، ایک بے گناہ کو سزا دینا برا ہے، پارٹی سے انحراف کرنے والے 100 چور ہوں گیے لیکن ایک تو ایماندار ہو گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ دوبارہ کسی کو الیکشن لڑنے کا کہنا بھی معمولی سزا نہیں، ایماندار آدمی کو پارٹی پالیسی کے خلاف رائے دینے پر تلوار کیوں لٹکا رہے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایماندار آدمی انحراف کرنے سے پہلے مستعفی کیوں نہیں ہوتا؟
جسٹس جمال خان نے مزید کہا کہ کسی کو نشست سے مستعفی ہونے پر مجبور نہیں جاسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے، 15 سے 20 اراکین ہیں جو کبھی قوانین نہیں بننے دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ مقننہ نہیں ہے، سپریم کورٹ تشریح کرتی ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ ہم آئین بنانے والوں کی نیت کو جانچ رہے ہیں؟ کیا ہم آئین بنانے والوں کی نیت کو جانچ سکتے
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب اچھے لوگ صرف حکومت میں ہی ہیں میں نے یہ تاثر نہیں دیا۔