آصف زرداری کا اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔ عمران خان کے پاس آخری ہفتہ ہے، جو مرضی کرلے کامیابی اپوزیشن کو ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ چودھری صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں لیکن میری نظر میں وہ وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے، ان کے پاس ووٹ نہیں ہیں۔ جس کو اپوزیشن نامزد کرے گی وہی وزیراعلیٰ پنجاب ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ق والے ہمارے ساتھ چلنے کیلئے تیار تھے۔ رات کو ہمارے ساتھ ملاقات کی لیکن صبح کہیں اور چلے گئے۔ انشا اللہ پنجاب میں ہم ہی تبدیلی لائیں گے۔ نمبر پمارے پاس ہیں، ان کے پاس نہیں۔ ایم کیو ایم سے متعلق بھی جلد اچھی خبر ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں: آپ کی پارٹی سنجیدہ ہے یا نہیں، آصف زرداری نے نواز شریف سے وضاحت مانگ لی
دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن وقت اگر وقت پر فیصلہ کر لیتی تو ق لیگ آج حکومت نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہوتی۔ واضح کریں کہ آپ کی پارٹی سنجیدہ ہے بھی یا نہیں؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق آصف زرداری نے یہ بات مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے ملک میں جاری سیاسی صورتحال کے بارے میں لیگی قائد کو آگاہ کیا اور ان کے فیصلے میں تاخیر کے معاملے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے وقت پر فیصلہ نہیں کیا جس کی وجہ سے معاملہ خراب ہوا۔ ن لیگ وقت پر فیصلہ کر لیتی تو مسلم لیگ ق آج ہمارے ساتھ ہوتی۔ واضح کریں کہ آپ کی پارٹی وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر سنجیدہ ہے بھی یا نہیں؟
خیال رہے کہ گذشتہ روز تحریک عدم اعتماد کی گونج کے دوران اہم سیاسی پیشرفت سامنے آئی ہے جس سے حکومت نے کچھ سکون کا سانس لیا ہے۔ ہوا یوں کہ وزیراعظم عمران خان نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو ان کے عہدے سے ہٹا کر چودھری پرویز الٰہی کو یہ اہم ذمہ داری سنبھالنے کی پیشکش کی جسے انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔
چودھری مونس الٰہی نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ دوران ملاقات ہی وزیراعظم نے سردار عثمان بزدارکو ہدایت کی کہ آپ اپنا استعفیٰ پیش کریں۔ اس کے بعد چودھری پرویز الٰہی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
اس سیاسی پیشرفت سے اپوزیشن اتحاد میں کھلبلی میچ گئی تھی لیکن بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو حزب اختلاف کی قیادت کو کچھ ریلیف ملا۔
سیاسی تجزیہ کار وزارت اعلیٰ کے عہدے کو چودھری پرویز الٰہی کیلئے ایک مشکل ٹاسک قرار دے رہے ہیں کیونکہ ناصرف پی ٹی آئی کے ناراض اور منحرف اراکین کو منانا ہے بلکہ انھیں باقی ماندہ مدت اقتدار میں بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔