منگل کے روز ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب حسن عسکری کے اہل خانہ بشمول ان کے والد ریٹائرڈ میجر جنرل سید ظفر مہدی عسکری، والدہ وسیمہ اور بہن زہرہ منظر عام پر آئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ صرف حسن کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) میں ناانصافی سے مقدمہ چلایا گیا اور اصل الزامات کے بارے میں بتائے بغیر اسے مختصر طور پر سزا سنائی گئی، بلکہ انہوں نے اصرار کیا کہ اسے سخت ترین مجرموں اور دہشت گردوں کے ساتھ انتہائی حفاظتی جیل میں قید کیا گیا۔ عدالتی حکم کے باوجود اڈیالہ جیل میں منتقل نہیں کیا گیا۔
حسن عسکری کو اکتوبر 2020 میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا اور فوجی تحویل میں منتقل کیا گیا تھا۔ کورٹ مارشل کے مقدمے کے بعد اسے مجرم قرار دیا گیا اور اسے پانچ سال کی سخت قید کی سزا سنائی گئی، حالانکہ متعدد بار درخواستوں کے باوجود نہ اسے اور نہ ہی اس کے خاندان کے افراد کو الزامات یا فیصلے کی کاپی موصول ہوئی۔
حسن کے والد میجر جنرل ظفر عسکری نے کہا کہ وہ ڈھائی سال سے فوجی حکام سے مختصر ملاقات کے لیے کوشش کرہے ہیں اور دو درجن سے زائدخطوط لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنے خطوط لکھے تاہم آج تک کسی قسم کا کوئی جواب نہیں آیا، کسی سے رابطہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی آزمائش کچھ مبینہ خطوط کا نتیجہ ہے جو ان کے بیٹے نے سابق چیف آف آرمی سٹاف اور ان کے اعلیٰ جرنیلوں کو لکھے تھے، جس میں پاکستان کی اقتصادی اور سیاسی صورتحال پر مسلح افواج کے فیصلوں کے ممکنہ اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
حسن کے والد نے کہا کہ ان کے بیٹے کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 131 کے تحت ایک جرم کا حوالہ دیا گیا ہے (بغاوت کو اکسانا، یا کسی فوجی، ملاح یا ایئر مین کو اپنی ڈیوٹی سے ہٹانے کی کوشش کرنا) لیکن اس میں پاکستان آرمی ایکٹ کی کوئی شق شامل نہیں تھی۔
اسے انصاف کی سنگین خرابی قرار دیتے ہوئے حسن کے خاندان نے موقف اختیار کیا کہ فوجی حکام کو بہکانے کی مبینہ کوشش کرنے پر ایک سویلین کا کورٹ مارشل کرنا، بغاوت اور سرکشی کے جرم کا مذاق اڑایا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ مبینہ خط میں صرف ایک محب وطن شہری کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے جس کا کبھی کسی تنظیم یا سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کسی قسم کے تشدد یا ریاست مخالف جذبات کی تشہیر کی کوشش کی تھی۔
اس کے باوجود، ان کے بیٹے کو ایک مجسٹریٹ نے اپنے دفاع کا موقع دیے بغیر فوجی تحویل میں منتقل کر دیا۔ اسے مہینوں تک بغیر کسی الزام کے قید تنہائی میں رکھا گیا اور نہ ہی کسی وکیل تک رسائی دی گئی اور اس پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد ہی اسے اپنے خاندان سے رابطہ کرنے کی اجازت دی گئی۔
حسن کی بہن زہرہ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ فیصلے کے بارے میں ان کے وکیل یا اہل خانہ کو کبھی نہیں بتایا گیا۔
زہرہ نے اس بات پر زور دیا کہ ملاقات کے لئےسخت پالیسی کے تحت ان کے بوڑھے اور بیمار والدین کے لیے ساہیوال میں حسن سے ملنے جانا تقریباً ناممکن تھا۔ ان کی والدہ دائمی گردوں کی ناکامی کی بیماری میں مبتلا ہیں اور انہیں ہفتے میں تین بار ڈائیلاسز کی ضرورت پڑتی ہے۔ پچھلے ڈھائی سالوں میں ان کی والدہ کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی ہے۔ اس کے والد کی عمر بھی 87 برس کے ضعیف آدمی ہیں اور وہ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں آدھے گھنٹے کے دورے کے لیے دن میں 14-15 گھنٹے کا سفر کرنا ناممکن ہے۔
انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ کا 14 جون 2022 کا ایک حکم نامہ بھی دکھایا جس میں حسن عسکری کو "پندرہ دنوں کے اندر" ساہیوال کی ہائی سیکیورٹی جیل سے اڈیالہ سنٹرل جیل راولپنڈی منتقل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ لیکن نو ماہ گزر جانے کے باوجود بھی عدالتی حکمنامے کی تعمیل نہیں ہوئی۔