اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترامیم تک چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے 184/3 کے مقدمات کی سماعت کو ملتوی کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کو بنچوں کی تشکیل سے بھی رک جانے کو کہا گیا ہے۔
اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور باقی تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ رولز میں چیف جسٹس پاکستان کو خصوصی بنچ بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے پاس یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ بنچ کی تشکیل کے بعد کسی خاص جج کو بنچ سے الگ کریں۔ سپریم کورٹ کے پاس اپنے رولز بنانے کا اختیار ہے۔
فیصلے میں درج ہے کہ اراکین پارلیمنٹ الیکشن میں عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ عوام الیکشن کے دوران ان کا احتساب کرتے ہیں۔ قوانین کے تحت بیوروکریسی حکومت کو جواب دہ ہوتی ہے۔ اس طرح سے عدلیہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہوتی۔ ایک جج سپریم جوڈیشل کونسل کو جوابدہ ہو سکتا ہے مگر پوری جوڈیشری نہیں۔
فیصلے کے متن کے مطابق چیف جسٹس اپنی دانش کو آئین کی حکمت کی جگہ نہیں دے سکتے۔ آئین نے چیف جسٹس کو یکطرفہ اور مرضی کا اختیار نہیں دیا۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز کے اجتماعی طور پر تعین کا کام چیف جسٹس اکیلے انجام نہیں دے سکتے۔
بنچ میں شامل جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا اور نوٹ میں لکھا کہ جن معاملات پر فیصلہ دیا گیا وہ ہمارے سامنے ہی نہیں تھے۔