پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ قانون توڑنے والوں کے خلاف کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ جس جگہ واقعہ پیش آیا وہ علاقہ حساس ہے، پارلیمنٹ کے رکن ہوں یا کوئی اور چیک پوسٹ پر مسلح ہو کر جانے کا جواز نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ کسی کے اشارے پر چل رہے ہیں، ان کا ایجنڈا کیا ہے معلوم نہیں لیکن یہ لوگ پشتونوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کی سیاست پر کوئی پابندی نہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر شخص کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے جائیں۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ فوج نے قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ پارلیمنٹ کے ممبر ہونے کا مطلب یہ نہیں جو مرضی کریں۔ فوج کی مسلسل کردار کشی ہو رہی ہے۔ کیا پنجابی بچوں کیساتھ زیادتیاں نہیں ہوئیں؟ فاٹا کے لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے یہ لوگ انہیں استعمال کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنا صوبہ سندھ سنبھالیں، خیبر پختونخوا کو چھوڑ دیں۔ انھیں اگر عوام کی پڑی ہے تو ایڈز پر توجہ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کو قانون کا نہیں پتا، انھیں بتایا جائے کہ انہوں نے فوج پر حملہ کیا جو معمولی بات نہیں ہے۔
دوسری جانب شہریار آفریدی نے کہا کہ پختونوں کی تاریخ میں کبھی پاکستان کیخلاف نعرے نہیں لگائے گئے۔ اگر کوئی گلا شکوہ ہے تو بیٹھ کر بات کی جائے۔ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں اور اس کا مستقبل روشن ہے۔
وزیر مملکت برائے سیفران کا کہنا تھا کہ مسائل کو بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت بدنیت ہوتی تو محسن داوڑ کو قرارداد پیش نہ کرنے دیتی۔ انہوں نے پی ٹی ایم کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ہر پاکستانی کو عزت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جب وزیر داخلہ تھا تو علی وزیر اور محسن داوڑ کو ساتھ بٹھایا۔ ایک لاکھ اکیاسی ہزار بلاک شناختی کارڈ کو بحال کروایا، انہیں قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بنایا، اب بھی قانون کے دائرے میں رہ کر ہمارے دروازے کھلے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے فوجی چیک پوسٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار ایم این اے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان قانون کے مطابق چلے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جس طرح سے جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں، جس طریقے سے انسانی حقوق پر حملے ہو رہے ہیں تو اس صورت حال میں ہر سیاسی جماعت اور ہر جمہوریت پسند کا فرض بنتا ہے کہ باہر نکلے اور پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی عید کے بعد سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کر چکی ہے۔
رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے فوری پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں تاکہ وہ جمعے کو ہونے والے اجلاس میں آ کر اپنا مؤقف دے سکیں اور قوم کو پتہ چل سکے کہ شمالی وزیرستان میں کیا ہو رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو وضاحت کرنی چاہیے کہ کس طرح سے ایک ممبر قومی اسمبلی کو بغیر پیشگی اطلاع کے گرفتار کیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارا ایک رکن قومی اسمبلی مسنگ ہے اور ایک گرفتار ہے، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس معاملے پر کیوں خاموش ہیں، انہیں قوم کو بتانا چاہیے کہ شمالی وزیرستان میں کیا ہو رہا ہے۔