سپریم کورٹ نظرثانی بل: نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی چیلنج کرنے کا راستہ ہموار

10:30 AM, 29 May, 2023

نیا دور
سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظرِ ثانی (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ) بل 2023 صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بن گیا۔ نئے قانون کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما جہانگیر خان ترین اپنی نااہلی کے خلاف درخواست دائر کرنے کے اہل ہوں گے۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے جمعہ (26 مئی) کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔

نئے ایکٹ کے تحت آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کیے گئے فیصلوں پر نظرثانی کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے۔ نئے قانون کے پیش نظر لارجر بنچ آرٹیکل 184(3) کے تحت نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

بل میں کہا گیا کہ نظر ثانی دائر کرنے والے درخواست گزار کو اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

بل کے مطابق ایسے متاثرہ شخص کو نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا جس کے خلاف اس قانون سے قبل آرٹیکل 184/3کے تحت فیصلہ دیا گیا ہو۔ یہ حق جو ماضی میں دستیاب نہیں تھا۔ نظر ثانی درخواست اس قانون کے آغاز کے 60 دن کے اندر دائر کی جائے گی۔

بل میں یہ بھی کہا گیا کہ نظر ثانی کی درخواست فیصلے کے 60 روز کے اندر دائر کی جائے گی۔ قانون کا اطلاق ماضی پر بھی ہوگا۔

مذکورہ بل گزشتہ ماہ 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد رواں ماہ 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔

مذکورہ بل ضمنی ایجنڈے کے ذریعے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایوان میں پیش کیا تھا جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 32 اور مخالفت میں 21 ووٹ آئے جس کے بعد بل اکثریتِ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔

"پاناما پیپرز" لیکس کے نتیجے میں نواز شریف کے خلاف جاری مقدمے میں عدالت کی 5 رکنی بینچ کی جانب سے یہ فیصلہ سنایا گیا تھا۔

دوسری جانب 15 دسمبر 2017 کو پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کو عدالت عظمیٰ نے ’’بے ایمان‘‘ ہونے پر نااہل قرار دے دیا۔

فیصلہ کمرہ عدالت نمبر 1 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سنایا تھا۔
مزیدخبریں