2013 کی الیکشن کمپین میں خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں سیاسی جلسوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے جو بیانیہ وہ بیان کرنا چاہتے ہیں وہ لوگوں تک نہیں پہنچتا بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی نیشنل پارٹی کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں کہ انہوں نے خیبر پختونخوا میں پختونوں کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونکا ہے جبکہ مرکزی حکومت بھی زیرعتاب آتی ہے اور ایسے وقت میں ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان پشاور میں احتجاج کرنے لگتے ہیں۔ یہی وقت پروجیکٹ عمران خان کے لئے سازگار ہوتا ہے۔
عوام سمیت اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ میں وہ امریکہ کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور کراچی سے خیبر تک لوگوں کے سامنے عمران خان ملک کے لئے مسیحا کے طور پر ابھرتے ہیں جس میں زیادہ تر تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں مگر الیکشن میں مرکز میں عمران خان کو حکومت نہیں دی جاتی بلکہ ایک کیس پروجیکیٹ کے طور پر خیبر پختونخوا کی باگ دوڑ اس کے حوالے کی جاتی ہے۔ اس میں پرویز خٹک سمیت عاطف خان موجود ہوتے ہیں اور یہ حکومت اپنا وقت گزار لیتی ہے۔ ان کے آپس میں اختلافات ہوتے ہیں مگر مرکز میں حکومت نہ ہونے کے باعث انہیں وہ فائدہ نہیں ملتا جو ہونا چاہئیے۔
پھر وقت پلٹا کھاتا ہے اور عمران خان ایک دفعہ پھر حکومت کے خلاف اٹھتے ہیں اور اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں جو 126 دنوں پر محیط ہوتا ہے جس میں وہ وہی حرکتیں کرتے ہیں جو 2023 میں کی ہیں۔ پی ٹی وی اور جیو ٹی وی پر حملہ کر دیتے ہیں۔ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرتے ہیں اور بل جلائے جاتے ہیں۔ اس دھرنے میں ہی عمران خان ریحام خان سے جڑ جاتے ہیں اور پھر دھرنا جس کا اختتام ایک عالمی سانحے پر ہوتا ہے جس پر عوام نا نواز شریف کو معاف کرے گی، نا عمران اور نا اس سے جڑے دیگر عںاصر کو معاف کیا جا سکتا ہے کیوںکہ آرمی پبلک سکول کے شہیدوں کا لہو رائیگاں نہیں جا سکتا۔ وہاں ان خاندانوں میں اب بھی سورج طلوع نہیں ہوتا۔
اس سانحے کے بعد دھرنے کا اختتام ہو جاتا ہے اور دونوں سیاسی لیڈران کی سیاسی موت ہوتے ہوتے رہ جاتی ہے۔ اس وقت ایک کی سیاسی موت یقینی تھی مگر اس سانحے نے ان دونوں لیڈروں کو دوبارہ سیاست میں ان کیا۔ پھر وقت نے دیکھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ گئے۔ عمران خان کے ساتھی آرمی کے خلاف ایک بات بھی برادشت نہیں کرتے تھے۔ وہ مرنے مارنے پر تل جاتے تھے۔ پھر الیکشن 2018 ہو جاتے ہیں جس میں ایک دفعہ پھر خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت آ جاتی ہے حالانکہ یہ پشاور کی ریت رہی ہے کہ وہ دوسری دفعہ کسی کو موقع نہیں دیتے مگر اس دفعہ ایک مرتبہ پھر پشاوری عمران خان کو بنوں اور پشاور کے این اے ون کی سیٹ جتوا دیتے ہیں جو عمران خان سے ان کی محبت کا ثبوت ہوتا ہے۔ مگر خان صاحب بنوں اور پشاور کی سیٹ کو چھوڑ کر دوسری جیتی ہوئی سیٹ سے قومی اسمبلی میں پہنچ کر وزیر اعظم بن جاتے ہیں اور اپنا 100 دن کا منصوبہ عوام کے سامنے رکھ لیتے ہیں جو عوام کو پسند آتا ہے اور انہیں خان میں ہی امید کی کرن نظر آجاتی ہے۔
عوام کی بڑی تعداد انہیں پسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر ایک پیار بھرا ہاتھ بھی موجود ہوتا ہے۔ عوام چونکہ پرانے چہروں کو دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہوتے ہیں وہ نئے لوگوں کو آزمانا چاہتے ہیں اور یوں ایک نئی حکومت گو کہ زیادہ تر اس میں جنرل مشرف کے لوگ ہوتے ہیں اور اسے مشرف کی ٹیم بی بھی کہا جاتا تھا مگر عمران خان نے جو باہر دنیا کو آنکھیں دکھانا شروع کردی اس سے بہت سوں کی بولتی بند ہو گئی تھی۔ جن پالیسیوں کی عمران خان بات کرتا تھا وہ عوام دوست پالیسیاں تھیں مگر وہ الگ بات کہ وہ اثر نہیں دکھا پائیں۔ اس دوران علی وزیر کی گرفتاری ہوئی، منظور پشتین کے احتجاج ہوئے۔ ٹی ایل پی کے احتجاج ہوئے مگر حکومت چلتی رہی۔ عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ وہ حال ہوتا ہے جو پچھلی حکومتوں میں ہوتا تھا۔
پارٹی کے اندر خان صاحب کے لوگوں کو نوازا جاتا ہے۔ پھر ریحام سے شادی اور پھر طلاق تک کی کہانی، یہاں پر قندیل بلوچ کا عمران خان کے گھر کے سامنے دھرنا پھر اس کی پنکی پیرنی کی خبر اور خاور مانیکا سے بشریٰ بی بی کی طلاق اور عمران خان سے شادی اور یہاں پر عمران خانی سیاست میں ایک نیا موڑ آتا ہے جب سب باتیں پیرنی کی مانی جاتی ہیں۔ کس کو پارٹی سے دور کرنا ہے، کس کو پارٹی میں عہدہ دینا ہے اور کس کو مسند اقتدار پر رکھنا ہے یہ سب پیرنی کے فیصلوں سے ہونے لگتا ہے اور پھر جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگ پارٹی سے نکل جاتے ہیں۔ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب لگا دیا جاتا ہے اور ساتھ میں ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی شروع ہوجاتی ہے۔
خان صاحب اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جب تک ان کو سمجھ آنے لگتی ہے پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ اسملبیوں سے نکل کر پشاور پھر بنی گالا اور زمان پارک تک کے سفر میں امریکہ کو مودر الزام ٹھہرانا، پھر سکیورٹی ایجنسیوں کو ٹارگٹ کرنا یعنی صبر کی انتہا کرا کر وہ دم لیتا ہے اور جب سفر انگریزی والا سفر بن جاتا ہے تو لگام ڈالنے کا وقت آ جاتا ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ پروجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور پارٹی کے ورکرز اور کچھ لیڈران کے کہنے پر وہ کچھ کر گزرتے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی املاک، فوجی املاک کو اربوں کا نقصان دیا جاتا ہے اور امریکہ کو الزام دینے والا پھر امریکہ سے مدد کی التجا کرتا ہے۔
اس پورے وقت میں جتنا عوام نے عمران خان کو سپورٹ کیا شاید ہی کسی سیاسی لیڈر کو اتنی اہمیت کسی نے دی ہو۔ سیاست دانوں کو اتنی پاپولیرٹی بہت مشکل سے ملتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں ذوالفقار بھٹو جیسے لیڈر کو پھانسی پر چڑھایا جاتا ہے، بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کو مار دیا جاتا ہے عوام نکلتی ہے مگر ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ نواز شریف جیسے سیاسی رہنما سے حکومت چھین لی جاتی ہے اور وہ دیکھتا رہ جاتا ہے تو عمران خان تو ان سب کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے اور یہ جتنے بھی بڑے لیڈر ہیں یہ جیل سے نہیں ڈرتے۔ خان عبدالغفار خان، ولی خان بابا جیسے سیاسی رہنما کو آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ مگر عمران خان کی غلطیاں اسے خود لے ڈوبی ہیں اور جو چہیتا لانچ ہوا تھا اب اس چہیتے کے لئے ٹف ٹائم بھی وہی لوگ دے رہے ہیں کیونکہ سیاسی رہنما کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔
اب آنے والا وقت بتائے گا کہ پروجیکٹ عمران خان کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ کیا دوبارہ ری لانچنگ ہوتی ہے یا کسی اور کو مہرہ بنا کر آگے کیا جائے گا۔ مگر عوام کی ایک بڑی تعداد پروجیکٹ عمران خان کے ناکام ہونے پر ماتم کناں ہے اور انہیں یقین نہیں آ رہا کہ یہ پروجیکٹ ناکام ہو چکا ہے مگر ہم اس پروجیکٹ کو ناکام نہیں کہیں گے۔ جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اور ایسے کھیلوں میں ناکامی کا سوال ہی موت ہوتی ہے۔