چیف جسٹس عدلیہ کی ساکھ کو اپنے اختیارات کی بھینٹ نہ چڑھائیں

چیف جسٹس عدلیہ کی ساکھ کو اپنے اختیارات کی بھینٹ نہ چڑھائیں
بنچز کی تشکیل کا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات پر بہت بڑا سوال ہے جو سپریم کورٹ کی ساکھ اور احترام کے متاثر ہونے کا سبب بن رہا ہے۔

دو دن قبل پنجاب کے صوبائی انتخابات بارے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی طرف سے نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے دوران چف جسٹس صاحب نے پانچ رکنی بنچ پر اٹھنے والے سوالات اور دلائل پر اپنے ریمارکس میں بہت ہی خوبصورت بات کہی کہ وہ اللہ کو خوش کرنے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں، حکومت کو نہیں۔ ان کی باتوں سے انصاف، شفافیت اور غیر جانبداری کی جھلک ملتی ہے مگر اس کی جھلک عمل میں بھی نظر آنی چاہئیے۔

ایک اور جگہ پر انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سات رکنی بنچ عدالت کے حکم پر بنا ہی نہیں تو ¾ کا فیصلہ کیسے ہو گیا۔ چیف جسٹس صاحب کی بات حقائق کی بنیاد پر تو ٹھیک ہے مگر الیکشن کمیشن کی طرف سے اٹھنے والے سوالات کے پیچھے اخلاقی، قانونی اور انصاف کے اصولوں پر مبنی اعتراضات کے وہ جواز ضرور موجود ہیں جنہیں پاکستان کی تاریخ ہر موڑ پر دہراتی رہے گی۔

اب اگر سپریم کورٹ کے بنچ بارے اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو یہ چیف جسٹس صاحب کے صوابدیدی اختیارات ضرور ہیں مگر ان کا عدالتی رائے پر اثر انداز ہونے والا پہلو کسی صورت بھی آئین، قانون اور انصاف کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اور یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں جتنا وہ پچھلے کئی ہفتوں سے تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا ایک طویل پس منظر ہے جس کے نتائج کی گونج پارلیمان سے اٹھتی ہوئی سپریم کورٹ کے در و دیوار سے بار بار ٹکرا رہی ہے۔ کبھی یہ تحفظات اعتراضات کی عرضیوں کی صورت میں ان کے سامنے پڑے ہوتے ہیں تو کبھی احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں عدالت عظمیٰ کے مرکزی دروانے پر للکار رہے ہوتے ہیں تو کبھی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کی صورت میں بے بسی کے عالم میں ان کی عدالت کو پارلیمان اور آئین کے اختیارات کی روح کو سمجھانے کی دہاہیاں دے رہے ہوتے ہیں۔

اس بنچ کا نو سے پانچ تک سکڑ جانا بھی اتنی پیچیدہ بات نہیں جس کی لوگوں کو سمجھ نہ آ رہی ہو اور بار بار سمجھانے کی کوشش کرنی پڑ رہی ہو۔ سب جانتے ہیں کہ دو نے اپنے آپ کو خود علیحدہ کیا جس کی وجہ ان پر اٹھنے والے اعتراضات تھے اور دو کو ان کی عدالتی آرا کی پاداش میں ان کی مرضی کے خلاف نکال دیا گیا جس کی گواہی اسی بنچ میں موجود دو معزز ججز اور غیر اصولی طور پر علیحدہ کئے جانے والے دو ججز کے اختلافی نوٹس بھی ہیں۔

پھر اس بنچ کے فیصلے سے قبل پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے فل کورٹ بنچ کی استدعا کو متنازع حالات کے باوجود یکسر طور پر نظر انداز کر دینا بھی قابل تشویش امر ہے اور یہ اس بنچ میں شامل ججز پر ایک شائستگی کے لبادے میں لپٹا ہوا پہلا عدم اعتماد نہیں تھا اور نہ ہی یہ پہلا فیصلہ ہے جس پر آئینی، قانونی اور اخلاقی سوال اٹھائے گئے ہوں اور جن کا جواز ڈھونڈنا نا ممکن ہو۔ جن میں سے سب سے زیادہ جس فیصلے پر عدالت کے اندر سے ججز نے بھی آواز اٹھائی وہ آئین کے آرٹیکل 62 بی کی تشریح کا تھا جس کے دو فیصلے ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ جس کو ماہرین قوانیں ری رائیٹنگ آف کانسٹی ٹیوشن کا درجہ دے رہے ہیں۔

پھر ان پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحریک انصاف کی سہولت کاری کے الزامات بھی گونج رہے ہیں جن کی تصدیق میں کچھ مبینہ آڈیو لیکس بھی آ چکی ہیں جو ابھی تک تردید پانے سے قاصر ہیں اور اس کے اشارے بنچ سے علیحدہ ہونے والے ججز کی طرف ہی نہیں بلکہ خود چیف صاحب کی طرف بھی جا رہے تھے جس پر ایک تقریب میں صحافی کی طرف سے سوال بھی کیا گیا اور انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش کروا دیا تھا۔

اب ان آڈیو لیکس پر حکومت نے جو کمیشن بنایا ہے اس کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں آ گئی ہیں جو پھر چیف جسٹس کے اختیارات کے تحت ان کے بشمول بنچ کے سامنے آ گئی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس صاحب کے شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔ پہلے بھی انہی اختیارات کے تحت بنائے ہوئے بنچز سے عدالتی رائے پر متاثر ہونے کا تاثر ابھر رہا تھا جس پر عمل کرنے سے حکومت نے انکار کر دیا تھا۔ اب حکومت آڈیو لیکس پر نوٹیفکیشن کی معطلی پر دیکھیں کیا مؤقف اختیار کرتی ہے اور ججز اس حکم پر عمل کرنے سے معذرت والا رویہ اختیار کرتے ہیں یا انکوائری جاری رکھنے سے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں سپریم کورٹ کے بارے تاثر اچھا نہیں لگ رہا کیونکہ اس سے مبینہ آڈیو لیکس میں بھی شدت آ سکتی ہے۔

پہلے انتظامی اختیارات نے ججز کو بدظن کیا تھا اب فیصلہ ان کی اہلیت پر سوال اٹھائے گا تو پھر کیا اس سے انتظامی اختیارات، ججز کی توہین اور سپریم کورٹ کو متنازع بنانے کا سبب نہیں بنیں گے؟

اس پر چیف جسٹس صاحب نے پریکٹس کا حوالہ دیا ہے اور پریکٹس تو کبھی بھی کسی قانون پر فوقیت حاصل نہیں کر سکتی۔ جب قانون میں کہیں بھی چیف جسٹس کے مشورے کا ذکر نہیں تو پھر وہ زبردستی اپنا مشورہ کیوں ٹھونسنا چاہتے ہیں اور وہ بھی اپنے ہی خلاف مبینہ الزامات کے معاملے پر بنائے گئے جوڈیشل انکوائری کمیشن پر۔ اس سے تو یہ بھی تاثر ابھرے گا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے اور ان کے خاندان کے کسی فرد کے خلاف کوئی تحقیق ہو۔

جہاں تک کسی جج کے مس کنڈکٹ کے خلاف انکوائری میں جوڈیشل کمیشن کے اختیارات کی بات ہے وہ ٹھیک ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے بھی تو واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ کسی جج کے خلاف کوئی انکوائری نہیں کریں گے تو پھر چیف صاحب کو کیا پریشانی لاحق ہے۔ ان کو اپنے ادارے اور رفقا ججز کی اہلیت اور ان کی نیت پر کبھی بھی شک کا تاثر سامنے نہیں آنے دینا چاہئیے اور پھر ایک ایسی کوشش جس پر عمل درآمد بھی یقینی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ کسی کو مجبور کر پائیں گے کہ وہ آپ کے فیصلے کی عملداری کرتے ہوئے اس کمیشن سے علیحدہ ہوجائیں۔ میرے خیال میں تو ایسے اقدامات رسوائی کا سبب بن سکتے ہیں۔

ان ختیارات پر سوالات پہلی دفعہ نہیں اٹھے بلکہ ان کا شکار سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ انہیں کوئٹہ کے ایک بنچ سے چائے کے وقفہ کے دوران علیحدہ کر دیا گیا تھا جن کا استعمال اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیا تھا اور اس بنچز کی تشکیل بارے اختیارات پر جسٹس فائز عیسیٰ متعدد بار اپنے اعتراضات اور تحفظات کا اظہار بذریعہ خطوط کر چکے تھے جن پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔

ان اختیارات کے استعمال سے پیدا ہونے والے انصاف کی فراہمی بارے خدشات کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے مشہور وکلا بارز اور قانونی ماہرین بھی مطالبات کرتے آ رہے تھے کہ ان کو تبدیل کیا جائے یا ان میں اصلاحات لائی جائیں جس کی تکمیل میں پارلیمان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ بنانا چاہا جس کو بننے سے بھی پہلے عدالت نے روکنے کی کوشش کی جو جانبر ثابت نہ ہو سکی۔

سوال اختیارات کے استعمال کا نہیں بلکہ ایسے استعمال کا ہے جو انصاف کی فراہمی پر اثرانداز نہ ہوں۔ اس کے قانون، آئین اور انصاف کے اصولوں کے مطابق استعمال کا ہے۔ جب چیف صاحب اللہ کو خوش رکھنے کی سوچ رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمٰن میں والسماء رفعھا ووضع المیزان کہہ کر میزان کا ایک اصول قائم کر دیا اور فرمایا؛ اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ ترجمہ: اس کا تقاضہ یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔

اللہ نے یہ بات صاحب اختیار کو ہی کہی ہوئی ہے۔ بات اختیار کی نہیں بلکہ اختیار کے صحیح استعمال کی ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کو غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے کہ نہیں۔

اللہ کی مخلوق کی آواز کو بھی نقارہ قدرت کا درجہ حاصل ہے جس پر فیصلہ تاریخ لکھتی ہے اور اس کی گونج آج کل ہر طرف سے آ رہی ہے جس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے وگرنہ مشاہدے کے لئے مثالوں کی کوئی کمی نہیں۔ چیف جسٹس صاحب آپ سے گزارش ہے عدلیہ کی ساکھ اور احترام کو اپنے اختیارات کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیجئے وگرنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔