’میں اپنی موت کا ذمہ دار آپ ہوں‘
رُشان فرُخ نے کچھ ہی روز پہلے لاہور کی بیکن ہاؤس یونیورسٹی کی چھت سے چھلانگ لگا کر خود کو ہلاک کر لیا۔ معاملہ خودکُشی کا تھا یا کسی حادثے کا نتیجہ، جس موضوع پر سبھی بات کر رہے ہیں یا دراصل معاملہ اس ذہنی دباؤ کا ہر صورت ہے، جس کا تعلق ہمارے ناقص تعلیمی نظام اور معاشرت سے ہے۔ فیصل آباد کے ادارے این ایف سی میں کیمیکل انجینئیرنگ کے طالبعلم سیف اللہ جمالی نے تو سب کو بتا کر عین یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے خود کو گولی ماری تھی۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایک پرچی ملی جس پر لکھا ہوا تھا کہ اس کی موت کا سوال کسی بھی شخص سے نہ کیا جائے، میں اپنی موت کا ذمہ دار آپ ہوں۔ سیف کا یہ لکھنا کیا ہمارے ان سوالوں کا جواب دیتا نظر نہیں آتا جس کا تعلق ذہنی انتشار بڑھاتے ہمارے تعلیمی دھندوں سے ہے؟ ان دونوں مثالوں نے ہمیں اس بات پر یکجا کرنے کی ہر ممکن کوشش تو کی ہے کہ مسئلے کا تعلق اس رسولی سے ہے جس کو کینسر بننا ہے یا تقریباً بن چکا ہے، جس کو ہم سر کا درد سمجھے بیٹھے ہیں اور کب سے غلط علاج کیے جا رہے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=1hM6bhOXO3E
’ہم نجی تعلیمی اداروں پر ہاتھ کبھی بھول کر بھی نہیں ڈال سکتے‘
مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں ہے کہ حکومت اپنے نئے تعلیمی پلان میں صوبوں سے مکمل مشاورت کے ساتھ چل رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی پاکستان پر حکمرانی کے دور میں تعلیم کو لے کر کونسا مثالی کام ہوا جس کی مثال میں یہاں بخوشی پیش کروں؟ اس کی ہزار توجیہات بھی گھڑ لیں مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کراچی میں اس دھندے پر ہاتھ ڈالے جانے کا غلطی سے پچھلے دنوں بٹن دب گیا تھا جس کو سعید غنی کے بیان نے ری سٹور کر لیا کہ نہیں جناب ہم نجی تعلیمی اداروں پر ہاتھ کبھی بھول کر بھی نہیں ڈال سکتے، تمام سکول، کالج، یونیورسٹی مالکان بغیر فکر فاقہ اپنا دھندا قائم دائم، جاری و ساری رکھیں۔ دھندے کو چلانے میں مرکزی مدد جس کردار کی درکار ہوتی ہے وہ ہمارے معاشرے کی بڑی معصوم سی مخلوق ہے۔ میں اساتذہ ہی کی بات کر رہا ہوں جناب۔ ان اساتذہ کو بھی ملا لیں جو جوان طلبہ و طالبات سے جنسی حرکتیں کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں اور وہ بھی جو طلبہ کو دو جمع دو کا نتیجہ پانچ بتاتے ہیں۔ مالک کے کاروبار کے لئے قدرے زائد کا ذریعہ تو بنے ہی ہوئے ہیں نا۔ اب اس بات کا ادراک ان لوگوں تک کیسے ہو کہ دراصل استحصال تو ان کا بھی برابر ہو رہا ہے لیکن ذرا پینٹ کوٹ پہنا کر کیا جا رہا تو بس احساس زائل ہو جاتا ہے۔؎
اساتذہ ذرا بتائیں مالک ایک دن کی چھٹی کرنے پر کتنے روپے تنخواہ کاٹتا ہے
میں استاد نہیں ہوں، مگر یہ جانتا ہوں کہ تعلیمی اداروں کے مالکان اساتذہ کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ ذرا بتائیے گا کہ مالک ایک دن کی چھٹی کرنے پر کتنے روپے تنخواہ کاٹتا ہے، یہ بھی کہ مالک آٹھ سے دس گھنٹے، کبھی کبھار اس سے بھی زیادہ دیر دماغ کھپانے کے کتنے پیسے دیتا ہے؟ کیا پہلے ماہ کی تنخواہ آپ کو بخوشی مل جاتی ہے؟ کیا مالک آپ کی کبھی بھی کسی بھی جگہ سرزنش نہیں کرتا؟ چلیں ان سوالوں کو چھوڑیے، یہ بتائیے کہ آپ کی خود کی تعلیم کتنی ہے؟ آپ طلبہ کو کن قدروں پر جانچتے ہیں۔ امتحانات میں کچھ خاص طلبہ کے گریڈز کن بنیادوں پر بڑھا دیے جاتے ہیں۔ کیا امتحان کے روز آپ ہی نہیں ہوتے جو فیسوں کی عدم ادائیگی پر طلبہ کو کمرہ امتحان سے باہر نکال دیتے ہیں اور ان کا اچھا خاصہ وقت ضائع کر کے واپس بھیج دیتے ہیں۔ اگر آپ کو میرے سوال بُرے لگ رہے ہیں تو چلیں کوئی اور بات کر لیتے ہیں۔
جعلی ڈگریاں بیچنے کا کھیل کھیلنے والوں کا دھندا اب تک بند کیوں نہ ہو سکا؟
ابھی تو یہ سوال بھی باقی ہے کہ ڈی جی خان کے انڈس انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ کے ساتھ سالہا سال سے جعلی ڈگریاں بیچنے کا کھیل کھیلنے والوں کا دھندا اب تک بند کیوں نہ ہو سکا؟ مولوی عبدالکریم نامی شخص جو کہ پچھلی حکومت میں ن لیگ کا منتخب ایم این اے اور وزارت تعلیم میں طاقت رکھنے والا عہدیدار تھا، انڈس انسٹیٹیوٹ کے نام پر دھندا کرنے پر، طلبہ کی زندگیاں تباہ کرنے پر اب تک کسی کی عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوا؟ نئے پاکستان کو بنے ہوئے سو دن ہو چلے۔ لاہور میں PIMSAT انسٹیٹیوٹ جیسے ادارے کے طلبہ بھی جعلی ڈگریوں کے کھیل کا نشانہ بنے اور عرصہ دراز سے عدالتوں کی خاک چھان رہے ہیں، مگر انصاف کو ابھی شاید مزید کئی سال درکار ہیں۔ ان تمام مسائل کا ہم طلبہ کی زندگیوں سے براہ راست تعلق ہے جن سے دھیان ہٹا کر آج تک ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر ہمیں مسلسل لوٹا جا رہا ہے۔
طلبہ کو یہ تک نہیں معلوم کہ ان کو دائیں دکھا کر بائیں جانب سے مارا جا رہا ہے
یہ بات بھی شامل بحث ہو کہ پچھلے دنوں این سی اے راولپنڈی اور لاہور کے طلبہ نے اپنے اپنے کیمپسز کو بند کر دیا تھا، وجہ یہ تھی کہ دوسرے شہروں سے آئے طلبہ فیسز کے ڈبل کردیے جانے اور تعلیم کے گرتے معیار سمیت ہوسٹل کے مسائل سے دوچار تھے۔ اس آواز کو خاموشی میں بدلنے میں بھی چند ہی دن لگے ہونگے۔ آج ان مسائل پر کوئی آواز بلند کرنے پر آمادہ کیوں نہیں؟ کیا واقعی وہ مسائل سب کے سب حل کر دیے گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو میں این سی اے کے طلبہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اگر نہیں تو خاموشی کی وجہ واضح کر دی جائے۔ دراصل میں خود بھی ایک یونیورسٹی سے اب بھی وابستہ ہوں۔ بھاری فیسیں ادا کرنے کے بعد بھی طلبہ کو یہ تک نہیں معلوم کہ ان کو دائیں دکھا کر بائیں جانب سے مارا جا رہا ہے۔ ایک بھی ایسا استاد نہیں کہ جسے صحیح معنوں میں پڑھانے کا منصب دیا جانا چاہیے، مگر کیا ہے دھندا ہے، تو اس کو چلانا ہے، گزارے کے لائق لوگوں کو بھرتی کر لیا جاتا ہے کہ جن سے بزنس میں یقینی فائدہ ہو، تعلیمی معیار گیا بھاڑ میں۔
پچھلے سال میں نے ان اداروں کے اس کانفلکٹ کو مینیج کرنے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ یہ لوگ طلبہ کو فیسوں کی عدم ادائیگی، یونیفارم اور مختلف انتہائی فضول قسم کے رولز سے ڈرائے رکھتے ہیں تاکہ طلبہ میں سے کسی ایک کی بھی آواز نہ نکلے، یہ سوچنا تو محال کہ ان کا استحصال جما کے ہو رہی ہے۔
بچوں کے دماغوں کو بنانے والے مخصوص اساتذہ کو لگایا جاتا ہے کہ بچہ آزاد سوچنے کی خواہش چھوڑ دے
کامریڈ عمار علی جان کو پنجاب یونیورسٹی سے نکالے جانا سوچنے پر پابندی کی ایک بڑی بدصورت مثال ہے۔ میری یونیورسٹی میں تو سوچ پر کنٹرول کرنے کا بہت ہی کمال منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جس پر یونیورسٹی والے کاربند ہیں۔ پہلے تین سمسٹر میں بچوں کے دماغوں کو بنانے والے مخصوص اساتذہ کو لگایا جاتا ہے کہ بچہ آزاد سوچنے کی خواہش چھوڑ کر ایک مخصوص رُخ اختیار کر لے جہاں سے ہر طرح کی سوچ کی تحریک کو ہتھکڑی لگ جائے۔ ان اساتذہ کی اپنی قابلیت پر وہ خود کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے یہ سب پڑھا ہی نہیں جو ہم آپ کو پڑھا رہے ہیں، لیکن بچوں اور ان کے والدین کے دماغوں سے کھیلنا خوب آتا ہے۔ مسئلہ تب پیش آیا جب مجھ جیسے ایک دو سر پھروں نے سوال اٹھانے کی روایت پر کپڑا مارا۔ یونیورسٹی میں ایک بھونچال سا مچ گیا جس کو قابو میں لانے کے لئے ان کو سافٹ اپروچ اپنانی پڑی اور طلبہ کو کھیلوں کا ہفتہ، یونیورسٹی ٹرپ جیسی سرگرمیوں میں مصروف کر دیا گیا۔
تو یہ سوال 30 نومبر کو اٹھائے جائیں گے
یہی وہ سوال ہیں جو ترقی پسند طلبہ ہر فورم پر اٹھاتے ہیں۔ اس بار وہی طلبہ یکجا ہو کر 30 نومبر کو ملک بھر میں طلبہ اور اساتذہ کو مارچ کی کال دے رہے ہیں، ایک انتہائی مؤثر اقدام جو بحث کے اصل رُخ کو مزید عام کر سکتا ہے۔ اس قدر گھٹن زدہ ماحول میں تمام تنظیموں بشمول پروگریسو طلبہ کولیکٹیو، آر ایس ایف، پی وائے اے، عوامی ورکرز پارٹی اور دیگر کے گٹھ جوڑ اور ان کی کاوشوں کو سلام ہے۔
سرمایہ داری نظام کا ایک اور کمال یہ ہے کہ وہ چور بھی ہے اور الٹا کوتوال کو بھی ڈانٹے ہے۔ استحصال کی راہ قائم رکھنے کے لئے ایک طرف یہ بات کی جاتی ہے کہ نوجوان ہی قوم کا اثاثہ ہیں، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ وہیں محرومیوں کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کے اسباب کچھ اس طرح ذہنوں میں ڈالے جاتے ہیں کہ نوجوان محنت نہیں کرتے، ان میں وہ بنیادی شعور ہی نہیں ہے جس کی قوم کو ضرورت ہے، انہیں اپنے ہی مسائل سے آگاہی نہیں ہے۔ میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ مسائل جن لوگوں یا جس طبقے سے جُڑے ہوتے ہیں ان کو اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ انہیں ہی تو اپنے مسائل کا اصل ادراک ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات پر بالکل شک نہیں ہونا چاہیے کہ طلبہ اور اساتذہ کو اور اس ملک کے ہر پسے ہوئے طبقے کو ان کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔ مگر ان زنجیروں کو توڑنے اور خود سے الگ کرنے کی ہمت کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ کب تک این جی اوز اور چند سرمایہ داروں کو ملا کر ہم پر اس بات کو تھوپا جائے گا کہ فلاں سیٹھ اس لئے ایک اچھا آدمی ہے کہ اس نے ملک میں تعلیم کا جال بچھایا۔ تعلیم کے دھندے کا جال ضرور بچھایا جس کے بعد پرائیویٹ سکولوں کو دھندا کامیاب کرنے کے نئے نئے طریقے ضرور ملے، یقین مانیں ان صاحبان کے تعلیمی دھندے کے جال کا گراف تو اوپر گیا ہے مگر ملک میں تعلیمی معیار کا گراف تیزی سے نیچے کی جانب ہی جا رہا ہے۔ اس ماحول میں ہمارے یہاں خادم رضوی صاحب کے پیروکار ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور ان کی پیداوار سرمایہ داری کوکھ سے ہی تب تک جاری رہے گی جب تک ہم صحیح بنیادوں پر سوچنا شروع نہیں کرتے۔ سوچ پر لگی ان زنجیروں کا ٹوٹنا اس ملک کی خوشحالی کی واحد ضمانت ہے۔ اور یہ کوئی لبرل ایجنڈا نہیں۔ اس لبرلزم کا ہم نے اچار ہی ڈالنا ہے جو خود سرمائے کی جھولی میں بیٹھ کر سیکولرزم کے خواب دیکھتی ہو۔ میں ترقی پسند طلبہ تنظیم کی مارچ کی کال پر لبیک کہتا ہوں، آپ بھی ضرور آئیے گا۔۔