پیپلز پارٹی آج بھی اصولوں پر قائم ہے

03:09 PM, 29 Nov, 2019

نیا دور علی وارثی رضا ہاشمی بیرسٹر اویس بابر حسنین جمیل فریدی محمد انوار حمزہ ابراہیم عبداللہ مومند حسنین جمیل مدثر الیاس خٹک سلیم احمد توقیر کھرل رفعت اللہ اورکزئی عظمیٰ شاہین ڈاکٹر اویس سلیم زاہرہ کاظمی فہد حسین شہزاد سرور مریم صدیقہ سید عرفان حیدر شیرازی طالعمند خان احمد نوید
آج 30 نومبر 2019 کو پاکستان پیپلز پارٹی کا 52 واں یوم تاسیس ہے جس کا مرکزی پروگرام مظفرآباد میں ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ کی بات کی جائے تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پیپلز پارٹی پاکستان بننے سے پہلے بھی تھی جس کے سربراہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو تھے، جنہوں نے آزادی سے قبل سندھ پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تھی۔

پاکستان بننے اور ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ڈکٹیٹروں نے اقتدار سنبھالے رکھا اور 1967 میں سر شاہنواز بھٹو کے فرزند شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔

پیپلز پارٹی وہ پہلی اور اب تک واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں، خواتین، اقلیتی برادری سمیت ہر شہری کے حقوق کے لئے جنگ لڑی اور اقتدار میں آ کر انکی خدمت کی۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے جن کی عوام میں بے پناہ مقبولیت نے جمہوریت دشمن قوتوں کے ہوش اڑا دیئے تھے- شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی کے خلاف آواز اٹھائی اور عوام کو آواز دی۔

عوام کو حق مانگنا سکھایا، آواز اٹھانا سکھائی اور ملک میں 1973 کے آئین کی شکل میں جمہوریت کے سفر کا آغاز کیا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے ان کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ بنا کر گرفتار کرایا اور پھر اس وقت کی کٹھ پتلی عدالت نے ڈکٹیٹر ضیاء کی خواہش کے مطابق پاکستان کے مقبول ترین رہنما کو پھانسی دی جسے اب عدالتی قتل کہا جاتا ہے جو پاکستان کی عدلیہ پر بدنما داغ ہے جسے دھونے میں اب تک اعلی عدلیہ کامیاب نہیں ہوسکی۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے پارٹی کا پرچم تھاما اور انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شہید بی بی عوام کی طاقت سے منتخب ہو کر مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں تو انکی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، عوام نے انہیں دوبارہ منتخب کیا مگر انکی حکومت کو دوسری مرتبہ بھی برطرف کیا گیا اور ملک میں جمہوریت کو کمزور کیا گیا۔

شید بی بی کی شہادت کے بعد جب کہا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہو گیا ہے تو اس وقت مرد حُر آصف علی زرداری نے مشکل ترین دور میں پارٹی کو سنبھالا کیونکہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب اس وقت پڑھائی مکمل کر رہے تھے۔ آصف علی زرداری صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت شہید بھٹو اور شہید بی بی کا پاکستان میں مظبوط جمہوریت کا خواب مکمل ہوا اور پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کی اور زرداری صاحب کو بطور صدر آئینی مدت مکمل کرنے والے پہلے منتخب صدر ہونے کا اعزاز ملا۔

بھٹو صاحب نے ملک کو 1973 کا جو آئین دیا تھا اسے ڈکٹیٹروں نے اپنی خواہش کے مطابق ترامیم کروا کے بگاڑ دیا تھا مگر آصف علی زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین کو اسکی اصل شکل میں بحال کیا۔

آج بھٹو خاندان کی تیسری نسل پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہی ہے۔ آج چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب کے ساتھ ایسے بھی لوگ ہیں جنکی تیسری نسل پیپلز پارٹی سے وفا نبھا رہی ہے۔ میرے والد سید سبط نبی زیدی نے انڈیا سے پاکستان ہجرت کی اور جب شہید بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو میرے والد نے بھی پیپلز پارٹی کی رکنیت حاصل کی اور آج میں بھی اس عوامی جماعت کا حصہ ہوں کیونکہ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو آج بھی اصولوں پر قائم ہے۔

ہمیں اپنی قیادت پر پورا اعتماد ہے، وہ دن دور نہیں جب بلاول بھٹو زرداری ملک کے نوجوان ترین وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کریں گے اور اپنے نانا شہید بھٹو اور والدہ شہید بی بی کے نامکمل مشن کی تکمیل کریں گے۔
مزیدخبریں