انتخابات کو متنازعہ بنائے جانے والے تاثرات کا خاتمہ ضروری ہے

الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے خدشات کا اظہار کرنے والی سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں سے ان کے تحفظات بارے جاننے کی کوشش کریں اور اگر ان کے پاس کوئی ٹھوس شواہد ہوں تو ان کو دور کرنے کے لئے کارروائی کو عمل میں لایا جائے۔

04:25 PM, 29 Nov, 2023

ڈاکٹر ابرار ماجد

اس وقت پاکستان میں انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوششیں تیز تر ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں جو کہ انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے اور اس پر پراسرار خاموشی اس کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ اگر تو ریاست، پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ادارے سمجھتے ہیں کہ ان انتخابات سے انہوں نے پاکستان کے معاشی اور سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے تو پھر انتخابات کے انعقاد سے پہلے اس طرح کے تاثر کو ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے تا کہ اس سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے خطرات کے خدشات کو بروقت ختم کیا جا سکے۔

چونکہ انتخابات کا شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور ان کو اس پر عمل درآمد کروانے کے لئے اختیارات بھی حاصل ہیں اس لیے ان کو چاہئیے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے تاثر کو ختم کرنے کی ہر مممکن کوشش کریں۔

اس کے لئے الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے خدشات کا اظہار کرنے والی سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں سے ان کے تحفظات بارے جاننے کی کوشش کریں اور اگر ان کے پاس کوئی ٹھوس شواہد ہوں تو ان کو دور کرنے کے لئے کارروائی کو عمل میں لایا جائے۔

میڈیا پر اس طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے بارے بھی پیمرا کو لکھا جائے کہ وہ اس بارے کوئی ضابطہ اخلاق جاری کریں جس کا ان کو پابند بنا کر ان شکوک و شبہات کا صفایا کیا جا سکے۔ اگر وہ خدشات رکھتے ہیں تو پھر ان کی ٹھوس بنیاد، شواہد اور دلیل ہونی چاہئیے اور اگر ایسا نہیں تو ان کی جواب دہی کو عمل میں لایا جانا ضروری ہے اور اگر کسی کو حکومت یا ان کے ماتحت اداروں سے غیر مساویانہ سلوک پر تحفظات ہیں تو اس کو دور کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے ہدایات جاری کی جائیں۔

جس طرح سے چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں یہ کہا تھا کہ میڈیا انتخابات کے انعقاد بارے شکوک و شبہات پیدا کرنے سے احتیاط کرے اسی طرح الیکشن کمیشن کو بھی انتخابات کو متنازعہ بنائے جانے سے احتیاط کی ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔ اور اگر الیکشن کمیشن کو اس بارے حکومت سے کوئی مدد درکار ہو تو اس کی بھی ڈیمانڈ کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح حکومت کی اپنے طور پر بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس بارے سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کی سینیئر قیادت کو بلا کر ان کو مطمئن کریں اور اگر حکومت کی طرف سے کوئی غیر مساویانہ برتاؤ نہیں تو سیاسی جماعتوں کو ذمہ دارانہ رویے کا پابند بنانے کے لئے قانونی اور تحقیاتی اداروں کو حرکت میں لاتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کریں تاکہ وہ ان جماعتوں کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لے سکیں۔

سیاسی جماعتوں کی اپنی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جمہوری تسلسل کو آگے بڑھانے کے لئے ذمہ دارانہ رویوں کو اپنائیں اور آپس میں باہمی اتفاق سے کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں جس سے ان کے مینڈیٹ کو یقینی طور حکومت میں نمائندگی کے حصول کا ذریعہ بنایا جا سکے اور اس بارے ان کے تمام تحفظات کا خاتمہ ہو سکے جن بارے ان کو تشویش ہے۔ اور مزید ان کو چاہئیے کہ وہ مساویانہ سلوک کو خود بھی یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو وہ جمہوری اقدار اور اصولی سیاست میں اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں اس کا دوسروں کے لئے یقینی ہونے کے ماحول کا ممکن بنانا ہی اصولی عمل ہے۔ اگر انہیں کسی طرح سے کوئی خاص پروٹوکول دیا جا رہا ہے جس کے وہ اہل نہیں یا کسی دوسری جماعت کو نہیں مل رہا تو ایسا پروٹوکول لینے سے احتیاط کریں تا کہ ان کو اس طرح کے سلیکٹیڈ کے تاثر سے نجات حاصل ہو سکے کیونکہ اس طرح کے تاثرات سے انتخابات کے بعد سیاسی عدم استحکام کی صورت خطرات کے خدشات جنم لے سکتے ہیں۔ اس طرح کے وقتی فوائد سے بعد میں ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

عسکری ادارے نے اپنے دو ریٹائرڈ افسران جو حق آزادی رائے کی آڑ میں انتشار پھیلانے میں مصروف تھے اور ان کے خلاف ادارے کے اندر نافرمانی پر اکسانے کے الزامات بھی تھے، کا کورٹ مارشل کیا ہے جس سے یقیناً غیر ذمہ دارانہ رویے والی نام نہاد صحافت میں فرق پڑے گا۔ اب صحافتی اداروں کو بھی چاہئیے کہ وہ بھی اپنی خود احتسابی کریں اور ذمہ دارانہ رویے کے ساتھ تبصروں اور تجزیوں کو ممکن بنائیں۔

اب جس طرح سے الزامات کے اشارے اسٹیبلشمنٹ کی طرف جا رہے ہیں اور اس پر خاموشی سے لگتا ہے کہ میڈیا پر دباؤ نہیں وگرنہ جیسا کہ ماضی میں میڈیا پر دباؤ ہوتا تھا اور خاص لوگوں کے بارے سافٹ امیج بنانے کی ہدایات جاری ہوتی تھیں ویسا ہی ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن نہ ہوتا جس سے نیوٹریلٹی اور آزادانہ حق آزادی رائے کے استعمال کی مثال بھی کہا جا سکتا ہے۔

لیکن اس میں صحافتی حلقوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محتاط رہیں اس سے نہ صرف ہماری جمہوریت اور سیاست کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے ہمارا عالمی سطح پر قومی تشخص بھی تباہ ہوتا جا رہا ہے جو پہلے ہی انتہائی خراب تھا۔ اس بارے ہمیں محض ماضی کے واقعات، خدشات اور مفروضوں کو بنیاد بناتے ہوئے تبصرے اور تجزیے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ ایمانداری کے ساتھ شواہد کی روشنی میں اپنی رائے دینی چاہئیے۔

اداروں کو بھی چاہئیے کہ وہ اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔ اس کے لئے نہ صرف اداروں کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا ازالہ کرنا چاہئیے بلکہ ان الزامات کی غیر جانبدرانہ اور شفاف طریقے سے تحقیقات کروانی چاہئیں جو واقعی انصاف کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہوئی نظر بھی آئیں تاکہ ان بے بنیاد الزامات کا سدباب ہو سکے جس کے لئے آسان سا حل یہ ہے کہ اسے براہ راست نشریات کے ذریعے سے عوام کو دکھایا جائے تاکہ حقیقت کھل کر عوام پر بھی عیاں ہو جائے۔

جمہوریت اور اصولی سیاست میں اعلیٰ اخلاقیات اور سیاسی شعور کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے لہٰذا بحیثیت قوم اگر ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت سے ہم مستفید ہوں تو پھر ہمیں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جس میں شہریوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے استعمال اور سیاسی جماعت کی چوائس میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت، سیاسی قیادت کا کردار و اخلاق اور پھر ان سیاسی جماعتوں کے سابقہ ادوار کی کارکردگی کو ملحوظ خاطر لاتے ہوئے اپنے رائے دہی کے حق کا استعمال کریں تاکہ ان جماعتوں کو بھی جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کی طرف لانے پر مجبور کیا جا سکے۔ ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ قوم کے اندر شعور اجاگر ہو چکا ہے اور اب ان کو سیاست خدمت سمجھ کر کرنا پڑے گی۔

انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانا ان کے انعقاد سے پہلے ضروری ہے۔ اگر اس کا بروقت نوٹس نہ لیا گیا تو پھر بعد میں مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مزیدخبریں