بلوچستان میں پرنٹ میڈیا صحافت آخری سانسیں لے رہی ہے

ہاکر محبوب علی نے بتایا کہ پہلے کوئٹہ کی اخبار مارکیٹ میں روزنامہ جنگ کی 24 ہزار کاپیاں آتی تھیں جو اب صرف 4 ہزار 500 ہو گئی ہیں۔ اب روزنامہ جنگ، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ مشرق اور لوکل اخبارات ملا کر بھی اخبار مارکیٹ میں 9 ہزار کاپیاں بھی پوری نہیں ہوتیں۔

07:37 PM, 29 Nov, 2023

محمد غضنفر

کوئٹہ میں 17 سال سے اخبارات کی ترسیل کرنے والے ہاکر محبوب علی گذشتہ 2 سالوں سے شدید مالی اور ذہنی مشکلات کا شکار ہیں، وہ ہاکر کا کام چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن متبادل روزگار نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔

محبوب علی کے مطابق بلوچستان میں اخبارات کی ڈیمانڈ میں 70 فیصد کمی آ گئی ہے جس کی وجہ سے اُن کا کمیشن بمشکل ماہانہ 13 ہزار روپے بنتا ہے جس میں گھر چلانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہو گیا ہے۔ جب وہ اخبار کی ترسیل کے شعبے میں ہاکر کا کام کرنے آئے تھے تو ان کا ماہانہ کمیشن 30 سے 40 ہزار روپے تک ہوتا تھا لیکن گذشتہ 10 سالوں میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ان کی آمدنی بھی تیزی سے کم ہوتی چلی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے سرکاری دفاترمختلف اخبارات کی 20 کاپیاں لیتے تھے لیکن اب بیش تر سرکاری دفاتر نے اخبارات بند کر دیے ہیں۔ اگر کچھ سرکاری دفاتر اخبارات لے رہے ہیں تو وہ بھی بمشکل مختلف اخبارات کی صرف 3 سے 5 کاپیاں لیتے ہیں۔ اسی طرح بیش تر گھروں میں بھی اخبارات اب بند ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب نیٹ پر خبر مل جاتی ہے تو اخبار خرید کر کیا کرنا ہے۔ وہ کوئٹہ کینٹ میں پہلے 380 مختلف اخبارات لے جاتے تھے جبکہ اب کوئٹہ کینٹ میں صرف 65 اخبارات جاتے ہیں۔

محبوب علی نے بتایا کہ پہلے کوئٹہ کی اخبار مارکیٹ میں روزنامہ جنگ کی 24 ہزار کاپیاں آتی تھیں جو اب صرف 4 ہزار 500 ہو گئی ہیں۔ اب روزنامہ جنگ، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ مشرق اور لوکل اخبارات ملا کر بھی اخبار مارکیٹ میں 9 ہزار کاپیاں بھی پوری نہیں ہوتیں۔ بڑے اخبارات پر کمیشن 8 سے 10 روپے ہے جبکہ چھوٹے اخبارات 3 سے 5 روپے کمیشن دیتے ہیں، تو اندازہ لگائیں کہ 9 ہزار اخبار کی کاپیوں پر 400 ہاکر کیا کمیشن کماتے ہوں گے؟ اگر سرکاری دفاتر اخبارات بند نہ کریں تو ہاکروں کا روزگار ٹھیک چلے گا جبکہ گھریلو صارفین کو بھی سوچنا چاہئیے کہ ماہانہ ہزار روپے دینے سے ہاکروں کے گھروں کا چولہا جلتا رہے گا۔

کوئٹہ شہر کے باچا خان چوک پر اخبارات کا سٹال چلانے والے 55 سالہ عبدالعلیم کہتے ہیں کہ پہلے باچا خان چوک پر 12 سے زائد سٹال ہوتے تھے جو کم ہوتے ہوتے اب صرف 2 سٹال رہ گئے ہیں۔ یہاں روزنامہ، ہفت روزہ، ماہنامہ اور رسالے بیچے چاتے ہیں لیکن اب خریدنے والے انتہائی کم ہیں۔ جس دن اخبار میں ٹینڈر، آسامیاں اور عدالتی اشتہار ہوں تب اخبار زیادہ بِکتا ہے۔ خبر پڑھنے کیلئے اب بہت کم لوگ اخبار خریدتے ہیں۔ اخبار کم بکنے کی وجوہات بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پہلے سرکلر روڈ پر بس اڈا ہوتا تھا تو مسافر اخبارات لے جایا کرتے تھے۔ پھر اڈا ختم ہونے کے ساتھ نیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد لوگ ویسے بھی اخبارات لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

عبدالعلیم کہتے ہیں کہ پہلے اخبارات میں بڑی بڑی خبریں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی آواز لگا کر خبر بتاتے تھے تو لوگ اخبار خریدنے کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اب تو اخبار میں کوئی لوکل بڑی خبر ہوتی ہی نہیں، سارے اخبارات پریس ریلیز اور سرکاری بیانات سے بھرے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کون اس مہنگائی میں اخبار خریدے گا۔

جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چیئرمین ببرک نیاز کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم آنے کے بعد اخبارات کی ریڈرشپ بہت کم ہوئی ہے کیونکہ اخبار میں خبر 24 گھنٹے بعد آتی ہے لیکن سوشل میڈیا پر خبر منٹوں میں آ جاتی ہے۔ موبائل فون، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ ہر ایک بندے کے پاس موجود ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو معلومات مل جاتی ہیں اور واٹس ایپ گروپس نے نیوز تک رسائی کو مزید آسان کر دیا ہے۔

ببرک نیاز کہتے ہیں کہ جو اچھے لکھاری تھے وہ بھی ٹی وی پر یا اپنے یوٹیوب چینل پر آ گئے ہیں اور اخبارات کی کوالٹی بھی وہ نہیں رہی۔ پہلے عوامی مسائل کی نشاندہی اداریہ یا اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی میں نظر آتی تھی، اخبارات میں مکالمہ بھی آتا تھا لیکن اب وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ اخبارات کا جومقصد تھا وہ تقریباً دم توڑ چکا ہے۔

ببرک نیاز کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ اگر دوسرا رُخ دیکھیں تو معاشرے میں پڑھنے کا رجحان بھی کم ہو گیا ہے۔ اخبارات ڈیجیٹل میں بھی آتے ہیں لیکن بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کالم کسی نے پی ڈی ایف میں پڑھا ہو۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں پڑھانے والے بھی اب طلبہ کو پڑھنے کیلئے مخصوص مواد دیتے ہیں جبکہ پہلے پوری پوری کتاب دی جاتی تھی۔ پھر آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے مزید تحقیق اور پڑھنے کے عمل کو کم کر دیا ہے۔ آج کے نوجوان کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اور آسانی سے متعلقہ مواد حاصل کر لیا جائے جس کی وجہ سے پڑھنے کا عمل مزید کم ہوا ہے۔

 ببرک نیاز سمجھتے ہیں کہ اب پاکستان میں صحافت مشن نہیں، کاروبار بن گئی ہے۔ آج کے مالکان کی توجہ خبر پر نہیں بلکہ اشتہار پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مفاد سے ہٹ کر کسی کے خلاف نہیں جا سکتے۔ اس کی وجہ سے خبر کی نوعیت ہمیشہ متاثر ہوتی آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جامعہ بلوچستان سے ہرسال بی ایس پروگرام کے 50 طلبہ پاس آؤٹ ہوتے ہیں لیکن میڈیا میں 5 فیصد ہی مشکل سے نظر آتے ہیں کیونکہ میڈیا کے طلبہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہاں تھئیٹر یا فلم پڑھائی جاتی ہے لیکن جب وہ پڑھتے ہیں تو پھر میڈیا میں نہیں جاتے۔ جو میڈیا کو سمجھ کر آتے ہیں وہی نیوز میڈیا میں آتے ہیں جبکہ بلوچستان کے میڈیا میں صرف 4 خواتین رپورٹرز ہیں جبکہ یہاں سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی بھی ہے جہاں سے ہر سال ماس میڈیا کی طالبات بڑی تعداد میں پاس آؤٹ ہوتی ہیں۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ کہتے ہیں کہ ہماری یونین کی بڑی واضح اور سخت پالیسی ہے کہ ہم ڈمی اخبارات کو مانتے ہیں اور نہ بیگار کیمپس کو مانتے ہیں۔ ہم ایسے ڈیکلریشن کی مخالفت کرتے ہیں جو اخبار چند کاپیاں چھپ کر سرکاری اشتہارات لے لیتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام اخبارات باقاعدہ سٹاف رکھیں اور بیگار کیمپ وہ اخبارات ہیں جو مارکیٹ میں تو ہوتے ہیں لیکن یہ نیوز ایجنسیوں کی خبروں پر چلتے ہیں۔ ان کے اپنے کوئی رپورٹر، فوٹوگرافر نہیں ہوتے اور یہ لوگوں کو بغیر تنخواہ کے اپنا کارڈ تھما کر کام لیتے ہیں۔ اس لیے ہی ہم ایسے لوگوں کو ممبرشپ نہیں دیتے جو مستقل کسی ادارے میں تعینات نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہمارا کہیں یونٹ نہیں ہے کیونکہ ایک سسٹم چلا ہوا ہے کہ خود بھی کمائیں اور ادارے کو بھی کما کر دیں۔ اس کی وجہ سے صحافت بھی متاثر ہو رہی ہے اور اس عمل کو ہم صحافتی معیار و اقدار کے بھی خلاف سمجھتے ہیں۔

منظور بلوچ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اخبارات اگر زوال کے شکار ہوئے ہیں تو وہ ڈیجیٹل پر آ گئے ہیں لیکن یہ چیز ہم بلوچستان میں نہیں دیکھ رہے کیونکہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر جعلی سرکولیشن ظاہر نہیں کر سکتے، وہاں مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں چند اخبارات ہیں جو ڈیجیٹل ہو گئے ہیں لیکن بیش تر اب تک نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں پرنٹ میڈیا کی صحافت ختم ہونے کے قریب ہے۔ ہم کئی بار مختلف اخبارات کے مالکان سے بھی مل چکے ہیں اور اُنہیں ملازمین رکھنے کا کہا ہے جبکہ ہم نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈمی اخبارات کو باقاعدہ دفتر اور سٹاف رکھنے کا پابند کرے تا کہ بلوچستان میں روزگار کے مواقعوں کے ساتھ میڈیا کے طلبہ کو بھی صحافت کا موقع ملے اور پرنٹ میڈیا صحافت بھی پروان چڑھے۔

بلوچستان حکومت کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کہتے ہیں کہ بے روزگاری کا مسئلہ ہر شعبے میں ہے۔ بلوچستان میں صحافت آزاد ہے۔ میڈیا اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ گریجویٹ ہونے والے نئے صحافیوں کو تربیت اورمواقعے فراہم کریں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس وقت لوکل اخبارات مالکان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ سرکاری اشتہارات بہت کم ہیں جبکہ بلوچستان میں پرائیویٹ سیکٹر اتنا مضبوط نہیں ہے۔ مگر پھر بھی انڈسٹری کو زندہ رکھنے کیلئے اداروں کو قربانی دینی ہوتی ہے۔ مشکلات وقتی ہوتی ہیں۔ بلوچستان کے اخبارات مالکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں صحافت کے فروغ کیلئے کردار ادا کریں۔

نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے مزید بتایا کہ اخبارات کو اشتہارات ان کی سرکولیشن کے حساب سے دیے جاتے ہیں جس میں اخبارات میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد اور تنخواہوں کو نہیں دیکھا جاتا۔

مزیدخبریں