تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق سینیٹر اور جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ کی شہریت منسوخی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا حافظ حمداللہ کے بچے بھی ہیں؟ کیا ان کے بچوں کے پاس بھی پاکستانی شناختی کارڈ ہے؟
نادرا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ دسمبر 2018 میں پہلی بار حافظ حمداللہ صاحب کو خط لکھ کر ان کا شناختی کارڈ بلاک کیا گیا تھا، ڈسٹرکٹ لیول کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا، حافظ حمداللہ کمیٹی میں پیش ہوئے تھے، ان سے اس کمیٹی نے دستاویزات طلب کیں اور جو دستاویزات حافظ حمداللہ نے پیش کیں وہ بوگس نکلیں۔
عدالت نے نادرا کا مؤقف سننے کے بعد حافظ حمداللہ کی شہریت منسوخ کرنے کا نادرا اور ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت پر عائد پابندی کا پیمرا کا فیصلہ بھی معطل کردیا اور نادرا سے شہریت منسوخی پر دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ نادرا یا وزارت داخلہ تاحکم ثانی حافظ حمداللہ کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔
اس سے قبل نادرا کے ترجمان فائق حسین کا کہنا تھا کہ حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ بلاک کر کے ان کی شہریت منسوخ کر دی ہے اب معاملہ وزارت داخلہ میں ہے جہاں حافظ حمداللہ کی اپیل کی سماعت ہو گی۔
ترجمان کے مطابق سیکرٹری داخلہ سماعت کے بعد حتمی فیصلہ کریں گے اور اگر انہوں نے حافظ حمداللہ کی شہریت بحال کر کے نادرا کو لکھا تو ان کا شناختی کارڈ بحال کر دیا جائے گا۔ تاہم نادرا ترجمان کا کہنا تھا کہ حافظ حمداللہ کے خلاف کارروائی نادرا نے از خود شروع نہیں کی تھی بلکہ ان کے حوالے سے رپورٹ ملی تھی جس کے بعد ان کا کارڈ منسوخ کیا گیا تھا۔
ترجمان کے مطابق کارڈ بلاک کرنے کا دھرنے سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ یہ فروری 2019 میں کیا گیا تھا۔
دوسری طرف ایک انٹرویو میں حافظ حمداللہ نے کہا کہ ان کو حکومت کے خلاف بولنے کی سزا دی جا رہی ہے کیونکہ ان کی شہریت میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں 1968 میں چمن میں پیدا ہوا، جہاں میرے والد پڑھاتے تھے۔ پھر پرائمری بھی وہیں سے پڑھی اور حفظ کیا۔ اس کے بعد میٹرک، ایف اے سب یہاں سے کیا۔ زندگی میں صرف ایک بار اٖفغانستان چند دن کے لیے گیا، جب وہاں طالبان کی حکومت تھی۔
حافظ حمد اللہ نے کہا کہ جب وہ پیدا ہوئے تو خوشی میں والد کے ایک شاگرد نے دو فائر کیے وہ شخص آج بھی زندہ ہے اور گواہ ہے۔ اسی طرح ان کے پرائمری کے استاد بھی زندہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو دور میں 1973 میں شناختی کارڈ بننے شروع ہوئے تب ان کے والد اور والدہ نے 1974 میں قومی شناختی کارڈز بنوا لیے تھے جبکہ والد نے نیشنل بینک میں اپنا اکاونٹ 1968 میں کھول لیا تھا اور تمام دستاویزات اب تک موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم معین قریشی اور شوکت عزیز کو بیرون ملک سے لا کر شناختی کارڈز بنا کر دیے گئے مگر مجھے پاکستان میں پیدا ہونے پر بھی مشکوک بنا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے 8 دیگر بھائی نادرا کے شناختی کارڈ رکھتے ہیں اور پاکستانی شہری ہیں تو وہ کیسے افغان ہو گئے؟
ایک سوال کے جواب حافظ حمداللہ کہا کہ ان کے سارے بیٹے زیر تعلیم ہیں تاہم ایک بیٹا آرمی میں بھرتی ہو گیا ہے اور اس وقت کاکول میں زیر تربیت ہے۔
انہوں نے پیمرا کی طرف سے ان کے ٹی وی پروگراموں میں آنے پر پابندی کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں پاکستانی شہری نہ بھی ہوتا تو ٹی وی پر آنے سے پاکستان کا قانون کسی طرح مانع نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی پر تو ٹی ٹی پی رہنما احسان اللہ احسان بھی آئے ہیں، بھارتی جاسوس کلبھوشن اور بھارتی گرفتار پائلٹ ابھینندن بھی۔